پانچ اکتوبر 2025 کی صبح حسب دستور دوستوں کے پیغامات پڑھنے/سننے کیلئے اپنے فون کے میسجنگ ایپلیکشنز کو ٹٹولنے لگا تو بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات واجہ قاضی داد محمد ریحان بلوچ کی طرف سے بھیجے ہوئے ایک پیام کی نوٹیفکیشن پر نظر پڑا۔ جب فون کا متعلقہ ایپلیشن کھول کر پیام پڑھا تو پیام میں ہمارے بہت ہی عزیز دوست، تحریک آزادی کے دیرینہ ساتھی واجہ شوکت جان بلیدی کے وفات کی خبر تھی۔
یہ اندوہناک خبر دل و دماغ پر بجلی کی طرح گری ،اس نے مجھے بے حد رنجیدہ و افسردہ کردیا۔ گو کہ یہ خبر اتنا غیر متوقع بھی نہیں تھا کیونکہ واجہ شوکت بلیدی کافی عرصہ سے جگر کے مہلک مرض میں مبتلا تھا اور گزشتہ کچھ عرصہ سے انتہائی علیل تھا۔
مرحوم واجہ شوکت جان بلیدی سے 8 جون کی صبح 9:02 بجے روزنامہ سنگر کی پالیسوں پر میری بات چیت ہوئی اور شام 4:44 بجے اس نے اپنے طبیعت خراب ہونے اور ایمرجنسی علاج کیلئے اسپتال میں داخل ہونے کی اطلاع دی۔ اس کی آواز بہت کمزور لگ رہی تھی۔ مجھے اس کی صحت اور سلامتی کے بارے میں بہت تشویش ہوئی اس لئے میں نے اسے کچھ عرصہ کیلئے آرام کا مشورہ دیتے ہوئے زیادہ فکر اور کام سے منع کیا۔
واجہ نے اگلے دن دو پہر کو میرے میسجز کا جواب دیا تھا اور اسپتال سے اپنی ایک تصویر بھی بھیجا تھا۔ واجہ نے وائس میسجز بھیجے تھے جن میں اس کی آواز بہت ہی نحیف تھا مجھے اس کی صحت کے حوالے سے کافی تشویش ہوئی تو میں نے اس سے دریافت کیا کہ وہاں اس کی تیمارداری کیلئے کوئی دوست موجود ہے یا نہیں تو اس نے جواب میں بتایا کہ ہے ایک دوست۔ چونکہ اس کی طبیعت کے حوالے سے مجھے تشویش تھی اس لئے میں نے 12 اور 13 تاریخ کو بطور سلام اسے سوشل میڈیا سے چند خبریں بھیجا مگر اس کا فون بند تھا۔
13 جون کو ایک واقف حال دوست سے میں نے واجہ شوکت کے بارے میں دریافت کیا تو اس دوست نے بتایا کہ واجہ شوکت کی طبیعت بہت خراب ہے اور اسپتال میں انتہائی نگہداشت کی وارڈ میں داخل ہے اور مزید بتایا 12 جون کو بے ہوش بھی ہوا تھا ،ڈاکٹر اس کی صحت یابی کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں۔
خصوصی نگداشت کے وارڈ میں کچھ دن ہوش و بے ہوشی کی حالت میں رہنے کے بعد اس کی طبیعت میں تھوڑا استحکام آگیا تھا اور 12 جون کے بعد پہلی بار واجہ شوکت نے 7 جولائی کو ایک وائس میسج بھیجا تھا جس میں وہ اپنے آواز سے بہت کمزور لگ رہا تھا اور اس سے الفاظ ادا نہیں ہو پارہے تھے۔ اس نے بتایا کہ بات کرنے یا میسج لکھنے میں دقت ہو رہی ہے اس لئے میں نے اسے میسج کرنے سے منع کرکے آرام کا مشورہ دیا۔ اس کی صحت کے پیش نظر وقفے وقفے سے اس سے مختصر حال و احوال ہوتا رہا۔ تا آنکہ اس کے وفات تک گاہے بگاہے تنظیم، سیاست، بالخصوص میڈیا کے حوالے سے اس سے بات چیت ہوتا رہا۔
واجہ شوکت بلیدی کی وفات سے بلوچ تحریک آزادی ایک انتہائی مخلص، مستقل مزاج، جفاکش، روشن خیال، بہادر، با صلاحیت اور صاحب نظر جہدکار اور رہنما سے محروم ہوگیا۔ میں جانتا ہوں کہ تنظیم اور قوموں کی کامیابی کا انحصار افراد اور شخصیات پر کم اور اجتماعی شعور و جدوجہد، پختہ ارادہ اور قربانیوں پر ہوتا ہے۔ مجھے یہ بھی پختہ یقین ہے کہ بلوچ قوم اور جہدکار واجہ شوکت بلیدی کی کمی سے پیدا خلاء کو ضرور پُر کریں گے مگر اس کی وفات سے میری زندگی میں ایک بہت ہی قریبی ہم خیال، ہم کاروان سیاسی اور فکری دوست کی جو خلاء پیدا ہوئی ہے شاید وہ پُر نہ ہوسکے۔
مرحوم بہت ساری خوبیوں سے مالا مال تھا۔ اس میں بہادری تھی، کام اور مسلسل کام کا جنون اور حوصلہ تھا مقصد کی کامیابی کیلئے نئی راہیں، نئے مواقع اور رابطے پیدا کرنے میں یکتا تھا۔ خطروں، مالی اور دیگر مشکلات کو خاطر میں نہیں لاتا تھا حتیٰ کہ شدید علالت کے وقت بھی وہ اپنے کام اور ذمہ داریوں کو نبھانے کیلئے پُرعزم تھا۔ اس کی شدید علالت اور خصوصی نگہداشت کے وارڈ میں زیر علاج ہونے کے وقت ذمہ دار دوستوں نے میڈیا سے متعلق اس کے کچھ ذمہ داریوں کو دوسرے دوستوں کو سونپ دیا تھا کیونکہ واجہ کی ذمہ داریاں محض ڈیلی سنگر، ماہنامہ سنگر اور سنگر پبلیکیشنز تک محدود نہیں تھیں بلکہ میڈیا کے حوالے سے مرحوم اور بھی بہت ساری ذمہ داریاں نبھا رہا تھا۔
خصوصی نگہداشت کی وارڈ سے ڈسچارج کے بعد بھی وہ چلنے پھرنے اور کام کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں تھا مگر جب اسے سنگر سے باہر اس کی ذمہ داریوں کو منتقل کئے جانے کے تنظیمی فیصلے کا علم ہوا تو وہ کافی دکھی اور رنجیدہ ہوا تھا۔ اس نے اس بارے میں کافی دکھی لہجے میں گلہ و شکوہ کیا۔ حتیٰ کہ اس فیصلے کو اپنے صحت کیلئے بیماری سے بھی بڑا دھچکا قرار دیا۔
میں نے اسے تسلی دینے کی کوشش کرتے ہوئے اسے سمجھایا کہ یہ اتنی بڑی بات نہیں ہے بلکہ تنظیموں میں ذمہ داریوں کی تبدیلی معمول کا عمل ہے۔ اجتماعی مفاد میں اس طرح فیصلے ہوتے رہتے ہیں اور دوستوں نے آپ کی صحت کے پیش نظر آپ کی ذمہ داریوں میں محض تھوڑی سی کمی لائے ہیں۔ اللّہ تعالیٰ آپ کو شفایاب کرے تحریک اور تنظیم کی طرف سے کام اور ذمہ داروں کی کمی نہیں ہے بلکہ اب بھی آپ فارغ نہیں ہو، ڈیلی سنگر، ماہنامہ سنگر اور سنگر پبلیکیشنز کی ذمہ داریاں آپ ہی کے پاس ہیں۔
میرااتنا دلاسہ دینے کے باوجود مرحوم کے جواب اور دکھی لہجے سے لگتا تھا کہ وہ اس فیصلے سے خوش نہیں ہے۔ اپنے کام سے لگن، ذمہ داریوں سے متعلق حساسیت، عزم و عمل اور روابط کی یہ حالت تھی کہ اپنے وفات سے محض ایک ہفتہ قبل یعنی 28 ستمبر کو اس نے اپنے آبائی علاقے سے کچھ اہم خبریں اور معلومات فراہم کی تھیں۔ تنظیم کے ساتھ اپنی وابستگی کے پورے عرصے میں مرحوم شوکت بلیدی تحریک آزادی کے تقاضوں اور تنظیمی شرائط پر ہمیشہ دستیاب وسائل میں کام کرتا رہا۔
نہ کبھی شرط و شرائط رکھے نہ کبھی کسی وسیلہ کی عدم فراہمی پر اپنا کام روک دیا حالانکہ اکثر لوگ تنظیمی شرائط اور دستیاب وسائل میں کام کرنے پرعملاً آمادہ نہیں ہوتے اور اپنے شر و شرائط پر کام کرنے کو ترجیح دیتے یا صاف انکار کرتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ واجہ شوکت بلیدی اتنے سارے اہم نوعیت کے کام نام، شہرت، نمود و نمائش کی بھوک میں مبتلا ہوئے بغیر گمنام رہ کر خاموشی سے سر انجام دے رہا تھا۔
ہم جانتے ہیں کہ نام و شہرت کا شوق ایک عمومی انسانی کمزوری ہے اور اکثر لوگ اس کمزوری کا شکار ہو بھی جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی دستیابی نے تو شہرت کے شوق کو پورا کرنے کے وافر مواقع بھی فراہم کردیئے ہیں۔ دیکھا ہے کہ لوگ کوئی مخصوص یونیفارم پہن کر اسی طرح کے یونیفارم میں ملبوس اپنے چند مریدوں کو آجو باجو کھڑا کر ویڈیو شوٹ کرکے، تصاویر کھینچوا کر اپنے آپ کو وہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں جو دراصل وہ ہوتے نہیں ہیں مگر واجہ شوکت بلیدی تحریک آزادی کے کئی محاذوں پر عملی خدمات سرانجام دینے کے باوجود اس عمومی انسانی رویئے کا شکار ہونے سے بچے رہے۔
البتہ بسر مرگ پر بھی اپنے ذمہ داریوں کو نہ صرف نبھانے کی کوشش کرتے رہے بلکہ ذمہ داریوں میں کمی لانے پر خوش ہونے کے بجائے سراپا احتجاج ہوئے، وہ قابل رشک کمٹمنٹ اور کام کا دھنی تھا۔
٭٭٭