امریکہ کے مختلف شہروں میں صدر ٹرمپ کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔
نیو یارک، واشنگٹن ڈی سی، شکاگو، میامی اور لاس اینجلس سمیت امریکہ کے شہروں میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف ’نو کنگز‘ کے عنوان سے مظاہروں میں بڑی تعداد میں لوگوں نے حصہ لیا۔
نیو یارک شہر کے مشہور ٹائمز سکوائر اور سڑکوں پر ہزاروں لوگوں نے ’جمہوریت، بادشاہت نہیں‘ اور ’آئین آپشنل نہیں ہے‘ جیسے نعروں والے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔
مظاہروں سے پہلے ٹرمپ کے اتحادیوں نے مظاہرین پر انتہائی بائیں بازو کی ’انتیفا‘ تحریک سے منسلک ہونے کا الزام عائد کیا، اور اس کی مذمت کی جسے انھوں نے ’امریکہ سے نفرت کرنے والی ریلی‘ قرار دیا ہے۔
کئی امریکی ریاستوں نے نیشنل گارڈ کو طلب کر لیا۔ تاہم منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ احتجاج اورریلیاں جس میں تقریباً سات ملین افراد حصہ لے رہے ہیں پرامن ہیں۔
جنوری میں وائٹ ہاؤس میں دوسری بار واپسی کے بعد سے ٹرمپ نے صدارتی اختیارات کے دائرہ کار کو بڑھا دیا ہے۔ انھوں نے ریاستوں کے گورنرز کی مخالفت کے باوجود وفاقی حکومت کے کچھ شعبوں کو ختم کرنے اور نیشنل گارڈ کے دستوں کو امریکی شہروں میں تعینات کرنے کے ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے۔
انھوں نے انتظامیہ کے اعلیٰ قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کے ممکنہ دشنموں کے خلاف قانونی کارروائی کریں۔
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ بحران میں گھرے ملک کی تعمیر نو کے لیے ان کے اقدامات ضروری ہیں اور انھوں نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے کہ وہ ایک آمر یا فاشسٹ جیسا برتاؤ کر رہے ہیں۔
ناقدین نے خبردار کیا ہے کہ ان کی انتظامیہ کے کچھ اقدامات غیر آئینی اور امریکی جمہوریت کے لیے خطرہ ہیں۔
اتوار کو نشر ہونے والے فاکس نیوز پر ایک انٹرویو میں ٹرمپ نے ریلیوں میں ان پر عائد کیے گئے الزامات کا جواب دیا ہے۔
ٹرمپ نے اس انٹرویو میں کہا کہ ’ایک بادشاہ! یہ کوئی عمل نہیں ہے، آپ جانتے ہو، وہ مجھے بادشاہ کہہ رہے ہیں۔ میں بادشاہ نہیں ہوں۔‘
نیو یارک میں یہ نعرے بلند ہوئے کہ ’جمہوریت کچھ ایسی ہی دکھائی دیتی ہے‘۔ ان نعروں کے پس منظر میں قریب قریب ایک ڈھول کی آواز مسلسل بج رہی تھی۔
ہیلی کاپٹر اور ڈرون اوپر سے اڑتے ہوئے دیکھے جا سکتے تھے اور وہاں پولیس موجود تھی۔
نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ نے کہا کہ شہر کے پانچ حصوں (بارو) یا اضلاع میں 100,000 سے زیادہ لوگ جمع ہوئے تھے اور احتجاج سے متعلق کوئی گرفتاری نہیں کی گئی۔
ٹائمز سکوائر پر موجود ایک پولیس افسر کے اندازے کے مطابق 20,000 سے زیادہ لوگ سینونتھ ایونیو کی طرف مارچ کر رہے تھے۔
فری لانسر اور ایڈیٹر بیتھ زسلوف نے کہا ہے کہ وہ نیویارک کے احتجاج میں شامل ہوئی ہیں کیونکہ وہ ٹرمپ انتظامیہ کے تحت ہونے والی ’فسطائیت اور آمرانہ حکومت‘ پر غم و غصہ اور پریشانی محسوس کرتی ہیں۔
’میں نیویارک شہر کا بہت خیال رکھتی ہوں۔ یہ مجھے بہت سے دوسرے لوگوں کے ساتھ گھر سے باہر نکلنے کی امید دیتا ہے۔‘
68 سالہ ریٹائرڈ الیکٹرانک انجینئر ماسیمو ماسکولی جو نیو جرسی کے رہائشی اور اٹلی میں پلے بڑھے ہیں نے کہا کہ وہ اس لیے احتجاج کر رہے ہیں کیونکہ انھیں تشویش ہے کہ امریکہ بھی اسی راستے پر چل رہا ہے جس تباہی کی طرف ان کا آبائی ملک گذشتہ صدی میں چل پڑا تھا۔
ماسیمو ماسکولی نے کہا ہے کہ وہ خاص طور پر ٹرمپ انتظامیہ کے امیگریشن کریک ڈاؤن اور لاکھوں امریکیوں کے لیے صحت کے شعبے میں ہیلتھ کئیر کے لیے مختص کٹوتیوں سے پریشان ہیں۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم سپریم کورٹ پر بھروسہ نہیں کر سکتے، ہم حکومت پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ ہم کانگریس پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ ہمارے پاس تمام مقننہ، ایگزیکٹو اور عدلیہ ہے جو اس وقت امریکی عوام کے خلاف ہیں۔ اس لیے ہم لڑ رہے ہیں۔‘
واشنگٹن، ڈی سی میں، جہاں ٹرمپ کی درخواست پر اگست سے نیشنل گارڈ کے محافظ تعینات ہیں، احتجاج میں بھی کوئی فوجی نظر نہیں آیا۔
یہاں ریلی میں ایک پلے کارڈ پر درج تھا ’ہاں میں انتیفا ہوں‘۔
76 برس کے چک ایپس نے کہا کہ یہ ایک جامع اصطلاع ہے جس کا صاف مطلب یہ بنتا ہے کہ وہ ’امن، ڈے کئیر، مناسب اجرت، ہیلتھ کیئر‘ جیسے مسائل کے علاوہ تارکین وطن اور سیاہ فام لوگوں کے حقوق کی بھی بات کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’وہ پورے نظام کو آنکھیں دکھا رہے ہیں یا اس کی کوشش کر رہے ہیں مگر اس سب میں انھیں کامیابی حاصل نہیں ہو رہی ہے۔‘
جمہور پسند سیاستدان بھی اس احتجاج کا حصہ بن گئے ہیں۔
سینیٹ کے اقلیتی رہنما چک شومر نے ایکس پر لکھا ہے کہ ’امریکہ میں ہمارا کوئی آمر نہیں ہے۔ اور ہم ٹرمپ کو اپنی جمہوریت کو کھوکھلا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘
نیویارک کے احتجاج میں ان کے ہاتھ میں اپنی تصویر والا پلے کارڈ تھا جس پر درج تھا کہ ’ہیلتھ کیئر کے بحران کو ٹھیک کریں‘۔
واشنگٹن ڈی سی میں ورمونٹ کے سینیٹر برنی سینڈرز نے اہم خطاب کیا۔
انھوں نے ہزاروں افراد کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم یہاں اس لیے نہیں ہیں کہ ہم امریکہ سے نفرت کرتے ہیں، ہم یہاں اس لیے ہیں کہ ہم امریکہ سے محبت کرتے ہیں۔
ڈیموکریٹک سینیٹرز کوری بکر اور ایڈم شیف نے بھی احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی اپنی ویڈیوز پوسٹ کیں، جس میں ملک بھر میں باہر نکلنے پر عوام کا شکریہ ادا کیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ ’جمہوریت ایسی نظر آتی ہے۔ بولنے کے لیے پورے امریکہ کا شکریہ۔۔‘
سینیٹر کرس مرفی نے اپنی آبائی ریاست کنیکٹیکٹ میں لوگوں کے بڑے ہجوم والی وڈیو شیئر کی۔ ’یہ حوصلے بڑھانے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا دن ہماری قوم کی 250 سالہ تاریخ میں پرامن احتجاج کا سب سے بڑا دن بن جائے گا۔‘
کئی امریکی ریاستوں میں ریپبلکن گورنرز نے مظاہروں سے قبل نیشنل گارڈ کے دستوں کو الرٹ پر رکھا تھا۔
ڈیموکریٹس کی طرف سے اس اقدام کی مذمت کی گئی۔ ریاست کے سرکردہ ڈیموکریٹ جین وو نے دلیل دی کہ ’پرامن احتجاج کو دبانے کے لیے مسلح فوجی بھیجنا بادشاہوں اور آمروں کا کام ہے اور گریگ ایبٹ نے ثابت کیا کہ وہ ان میں سے ایک ہے۔‘
ورجینیا کے ریپبلکن گورنر گلین ینگکن نے بھی ریاست کے نیشنل گارڈ کو فعال کرنے کا حکم دیا تھا تاہم مقامی سطح سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق احتجاج کے دوران فوجی موجود نہیں تھے۔
یہ احتجاج صرف امریکہ تک محدود نہیں رہا۔
پورے یورپ میں برلن، میڈرڈ اور روم میں بھی مظاہرے ہوئے جب لوگوں نے اپنے امریکی شہریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ لندن میں کئی سو مظاہرین امریکی سفارت خانے کے باہر جمع ہوئے۔
ٹورنٹو میں بھی ایسے ہی مناظر تھے، جہاں امریکی قونصل خانے کے قریب مظاہرین نے ’ہینڈز آف کینیڈا‘ والے جھنڈے لہرائے۔
ڈونلڈ ٹرمپ پر امریکیوں میں شدید تقسیم پائی جاتی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے اپسوز کےساتھ کیے جانے والے ایک حالیہ سروے سے معلوم ہوا ہے کہ صرف 40 فیصد نے صدر کے طور پر ان کی کارکردگی کو سراہا ہے جب کہ 58 فیصد نے اس کے مخالف رائے دی ہے۔
اگرچہ یہ ٹرمپ کی پہلی مدت کی اوسط مقبولیت کے برابر ہے مگر جنوری میں دوسری بار صدارت کا منصب سبنھالنے پر ٹرمپ کی مقبولیت میں 47 درجے کی کمی دیکھنے میں آئی۔
یہ ایک عام بات ہے کہ صدور کی مدت ختم ہونے کے ساتھ ہی وہ زیادہ غیر مقبول ہو جاتے ہیں۔
اس سروے کے مطابق جنوری 2021 میں جو بائیڈن کی مقبولیت 55 فیصد تک تھی۔ اس سال اکتوبر تک یہ محض 46 فیصد تک رہ گئی تھی۔