سمندر کے کنارے پیاسا شہر | عزیز سنگھور

ایڈمن
ایڈمن
7 Min Read

گوادر، وہی شہر جسے کبھی "ایشیا کا دبئی” اور "پاکستان کا مستقبل” قرار دیا گیا تھا، آج ایک بوند پانی کو ترس رہا ہے۔ دنیا بھر کے سرمایہ کار اور اسلام آباد کے حکمران اس ساحلی شہر کے نیلے پانیوں میں ترقی کے خواب دیکھتے ہیں، مگر انہی پانیوں کے کنارے رہنے والے لوگ دو گھونٹ پینے کے لیے آسمان کی طرف نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ سی پیک کے نعرے، ترقی کے وعدے اور خوشحالی کے خواب سب کچھ موجود ہیں۔ بس زندگی کے بنیادی تقاضے پورے نہیں ہوئے۔

گوادر کے شہریوں نے پانی کی شدید قلت کے خلاف ادارہ ترقیاتِ گوادر (جی ڈی اے) کے دفتر کے سامنے بھرپور احتجاج کیا۔ سابق بلدیہ چیئرمین شریف میانداد، عبد الحمید انقلابی، مولانا الیاس، ولید مجید، ناصر موسیٰ، شکیل کے ڈی اور دیگر مقررین نے اپنے خطاب میں کہا کہ گوادر اور گردونواح میں پانی کا بحران سنگین شکل اختیار کر چکا ہے۔ جی ڈی اے نے پانی کی فراہمی کی ذمہ داری تو سنبھالی ہوئی ہے مگر عملاً عوام کے حصے میں صرف مایوسی آئی ہے۔ گوادر آج بھی پیاسا ہے، اور اس پیاس کے مقابل حکومت کی خاموشی تماشائی سے بڑھ کر ظالمانہ ہے۔

سوشل میڈیا پر فوٹو سیشن اور ترقی کے بیانات کی گونج ہے، مگر زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے۔ وہ شہر جو عالمی تجارت کا مرکز بننے جا رہا ہے، وہاں کے عوام آج بھی ٹینکر کے پانی پر زندہ ہیں۔ یہ کیسا ترقیاتی منصوبہ ہے جو انسان سے اس کا پانی چھین کر ترقی کے اعداد و شمار میں اضافہ کرتا ہے؟ گوادر کے لوگوں کا کہنا ہے کہ پینے کے پانی کی فراہمی دوبارہ محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے سپرد کی جائے، تاکہ شفاف نظام کے تحت پانی کی تقسیم ممکن ہو سکے۔

مگر پانی ہی واحد مسئلہ نہیں۔ گوادر کی پیاس صرف جسمانی نہیں، یہ سماجی اور سیاسی محرومی کی پیاس ہے۔ تعلیم، صحت، روزگار، سب کچھ اس صحرا میں نایاب ہو چکا ہے۔ تعلیمی اداروں کی حالت زار دیکھ کر والدین اپنے بچوں کو لاہور، اسلام آباد اور کراچی بھیجنے پر مجبور ہیں۔ مگر ہر بلوچ والد کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ اپنے بچے کو شہر سے باہر تعلیم دلوا سکے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایک پورا علاقہ شعور سے محروم رکھا جا رہا ہے۔

یاد کیجئے، سنہ 2019 میں چین نے سی پیک کے تحت بڑے فخر سے اعلان کیا تھا کہ وہ 20 ہزار پاکستانی طلبہ کو اسکالرشپس دے گا اور ایک ہزار اسکولوں کی تعمیر کرے گا۔ افسوس کہ ان بیس ہزار اسکالرشپس میں سے شاید دو درجن سے بھی کم گوادر کے طلبہ کے حصے میں آئیں۔ بقیہ اسکالرشپس کا کوئی پتہ نہیں، نہ وہ گوادر پہنچیں، نہ پنجگور، نہ کیچ، نہ پسنی، نہ اورماڑہ، نہ لسبیلہ، وہ یا تو بیوروکریسی کے فائلوں میں گم ہو گئیں، یا کسی مخصوص صوبے کے ’’ترقی یافتہ‘‘ طبقے کے حصے میں آ گئیں۔ گویا یہ اسکالرشپس زمین نے نگل لیں یا آسمان کھا گیا۔

لیکن یہ صرف ایک ’’اتفاق‘‘ نہیں تھا بلکہ ایک منصوبہ بند محرومی تھی۔ ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی، تاکہ بلوچستان کے بچے تعلیم سے محروم رہیں، ان کے ذہنوں میں سوال پیدا نہ ہوں، اور وہ کبھی اپنی زمین اور ساحل پر اختیار مانگنے کے قابل نہ بن سکیں۔ کیونکہ طاقت ور طبقات جانتے ہیں کہ پڑھا لکھا بلوچ خطرناک ہوتا ہے وہ سوال کرتا ہے، وہ حق مانگتا ہے۔

انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی تعمیر ہو یا فری زون کا قیام، ان سب منصوبوں کا مقامی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ ان منصوبوں کے لیے زمینیں بلوچوں سے لی گئیں، مگر ان زمینوں پر بننے والی عمارتوں اور فیکٹریوں میں بلوچوں کو روزگار نہیں ملا۔ ترقی کے نام پر محرومی کی ایک نئی دیوار کھڑی کی جا چکی ہے۔

گوادر کے لوگ سوال کرتے ہیں کہ کب وہ دن آئے گا جب ان کے گھروں میں نلکوں سے پانی آئے گا، اور جب وہ اپنے وسائل پر اختیار حاصل کریں گے؟ مگر ان سوالوں کے جواب میں حکومتی ادارے یا تو خاموش ہیں یا جھوٹے وعدے دہرا رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ گوادر کے لوگ ترقی نہیں بلکہ "وجود” کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ دو گھونٹ پانی مانگتے ہیں، مگر انہیں بدلے میں ترقی کے کھوکھلے دعوے دیے جاتے ہیں۔ گوادر کے عوام کا یہ احتجاج دراصل زندگی کے حق کا مطالبہ ہے، جسے آئینی، اخلاقی اور انسانی بنیادوں پر تسلیم کیا جانا چاہئے۔

بلوچ عوام کا دکھ یہ ہے کہ ان کی زمینوں پر بندرگاہیں بنتی ہیں، مگر وہ خود بندرگاہوں کے باہر کھڑے رہ جاتے ہیں۔ ان کے وسائل پر فیصلے اسلام آباد میں ہوتے ہیں، اور ان کی محرومیوں پر رپورٹس بیجنگ میں لکھی جاتی ہیں۔

گوادر کے عوام نے پارلیمانی سیاست پر بھی اعتماد کیا، مگر بدلے میں انہیں دھوکہ ملا۔ سردار اختر مینگل کی جماعت سے لے کر ڈاکٹر مالک بلوچ کی جماعت اور موجودہ ایم این اے ملک شاہ گورگیج اور موجودہ ایم پی اے مولانا ہدایت الرحمان تک، سب نے وعدے کیے، مگر کسی نے بھی ماہی گیروں کی پیاس نہیں بجھائی، نہ ان کے حقوق واپس دلائے۔

اب عوام سمجھ چکے ہیں کہ ان کا نجات دہندہ کسی ایوان میں نہیں بیٹھا، بلکہ وہ خود ان کی صفوں میں ہے۔ وہ جان چکے ہیں کہ پارلیمنٹ بلوچ دکھوں کا مداوا نہیں، بلکہ ان کی غلامی کا ایک نیا طریقہ ہے۔ گوادر کے عوام نے بہت انتظار کیا۔ ووٹ دیے، دعائیں کیں، وعدے سنے، مگر ان کی پیاس نہ بجھی۔ اب وہ سمجھ چکے ہیں کہ پارلیمانی سیاست ان کے زخموں پر مرہم نہیں بلکہ نمک چھڑکتی ہے۔
اب وہ بند کمروں کی سیاست نہیں، کھلے آسمان کی مزاحمت چاہتے ہیں۔ بلوچستان اب اپنے دکھوں کی زبان میں بول رہا ہے اور جب قوم اپنی زبان میں بولے، تو کوئی طاقت اسے خاموش نہیں کر سکتی۔

***

Share This Article