بورے اڑے ہشت | عزیز سنگھور

ایڈمن
ایڈمن
8 Min Read

بلوچستان کی زمین پر بسنے والے لوگ پچھلی کئی دہائیوں سے سیاسی، معاشی اور سماجی محرومیوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ ان کے حصے میں وہ خواب بھی ادھورے آئے جو باقی ملک کے لیے حقیقت بنے۔ اب ایرانی سرحد کی بندش نے ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا ہے۔ مکران اور رخشان جیسے سرحدی خطوں میں زندگی کی سانسیں ہمیشہ سرحدی تجارت کے دم پر چلتی رہی ہیں۔ جب تک بارڈر کھلا رہتا ہے، روزگار کے چراغ جلتے ہیں۔ لیکن جب سے ایران کے ساتھ تجارت بند ہوئی ہے، بلوچستان کے عوام گویا معاشی اندھیروں میں گم ہوگئے ہیں۔

اس تباہی کے منظرنامے میں سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اپوزیشن کی آواز بھی کہیں دب سی گئی ہے۔ اسمبلیوں میں بیٹھے نمائندے، چاہے وہ حکومت کے ہوں یا اپوزیشن کے، عوامی دکھوں کے ذکر سے گریزاں ہیں۔ تاہم ایسے وقت میں کچھ شخصیات ابھر کر سامنے آتی ہیں جو اکیلے ہی "عوامی انجمن” بن جاتی ہیں۔ ان کے بولنے کا انداز، ان کے جملے اور ان کا طنز عوام کے دلوں تک پہنچ جاتا ہے۔ انہی میں سے ایک پنجگور کے معروف سماجی شخصیت ڈاکٹر نور احمد بلوچ ہیں۔

ڈاکٹر نور احمد بلوچ کا تعلق ایک عام گھرانے سے ہے مگر ان کی باتیں کسی بھی بڑے سیاسی رہنما سے زیادہ وزن رکھتی ہیں۔ وہ جس موضوع پر لب کشائی کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر ان کی ویڈیو لمحوں میں وائرل ہوجاتی ہے۔ ان کی باتوں میں مزاح بھی ہوتا ہے، تلخی بھی، مگر سب سے بڑھ کر سچائی کی وہ چبھن ہوتی ہے جو حکمرانوں کو بے چین کردیتی ہے۔ ان کا انداز کسی سیاسی جلسے کے مقرر جیسا نہیں بلکہ ایک عام بلوچ شہری کی دل کی آواز لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ انہیں “مکران کا عابد شاکا” کہتے ہیں۔ جیسے کراچی کے لیاری میں عابد شاکا اپنی عوامی زبان اور تلخ طنز سے سیاستدانوں کو آئینہ دکھاتا ہے۔

ڈاکٹر نور بلوچ کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ ان کا عوامی شعور ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ مکران کے لوگ کتنی مشکلات میں جی رہے ہیں۔ بارڈر بند ہو، پٹرول مہنگا ہو، یا روزگار کے مواقع ختم ہوں۔ ڈاکٹر صاحب اپنے مخصوص لہجے میں سب کچھ کہہ جاتے ہیں۔ ان کے جملے کسی نعرے کی طرح عوام میں گونج اٹھتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے مغربی اور مشرقی بلوچستان کے درمیان تجارتی بندش پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کے 2024 کے انتخابی نتائج تبدیل نہ کیے جاتے تو آج وہ قومی اسمبلی کے رکن ہوتے اور بلوچ عوام کے مسائل اسمبلی فلور پر اٹھاتے۔

یاد رہے کہ ڈاکٹر نور بلوچ نے عام انتخابات 2024 میں این اے-258 سے نیشنل پارٹی کے امیدوار پھلین بلوچ کے خلاف الیکشن لڑا تھا۔ ان کے مطابق، انہیں شکست نہیں بلکہ "نتائج میں تبدیلی” کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا جملہ “پھلین بلوچ فارم 47 کی پیداوار ہے” عوامی زبان بن گیا۔ اسی جملے نے سیاست کی بساط پر ہلچل مچادی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر نور بلوچ کی ایک ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد اسلام آباد کے ایوانوں میں بھی ارتعاش پیدا ہوا۔ نیشنل پارٹی کے ایم این اے پھلین بلوچ، جو پہلے خاموش تھے، بالآخر قومی اسمبلی میں بارڈر بندش کے خلاف بولنے پر مجبور ہوگئے۔ گویا عوامی دباؤ اور طنز کا تیر کہیں نہ کہیں اپنا ہدف ضرور پاتا ہے۔

اسی دوران، نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر زیرِ بحث آگئی۔ ویڈیو میں وہ کیچ کلچر فیسٹیول کے دوران بلوچی روایتی کھیل “ہشت چوکی” کھیل رہے تھے۔ عوام نے اس منظر کو مزاحیہ انداز میں لیا، مگر اس کے پیچھے چھپی طنزیہ حقیقت کچھ اور تھی۔ لوگوں نے سوشل میڈیا پر تبصرہ کیا:
"بلوچستان کے عوام بھوک اور بے روزگاری سے لڑ رہے ہیں، اور ہمارے نمائندے فیسٹیول میں کھیل کھیل کر خوشیاں منا رہے ہیں!”۔

یہ جملہ محض تنقید نہیں بلکہ ایک سماجی احتجاج تھا۔ عوام سمجھ چکے ہیں کہ فیسٹیول کے رنگ اور اسٹیج پر گانے بجانے کے پیچھے اکثر سیاسی ایجنڈا چھپا ہوتا ہے۔ جس کا مقصد دنیا کو یہ دکھانا ہوتا ہے کہ بلوچستان میں سب کچھ نارمل ہے، جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔

یقیناً کلچر فیسٹیول ہونے چاہئیں، مگر ان کا مقصد ثقافت کا احیاء ہونا چاہیے، نہ کہ سیاسی چمک دمک۔ ادب، موسیقی اور کھیل کو اگر سیاست کی نذر کردیا جائے تو وہ اپنی اصل روح کھو دیتا ہے۔ بلوچی ثقافت کی اصل خوبصورتی اس کی سادگی، اجتماعیت اور علم دوستی میں ہے، نہ کہ فوٹو سیشنز اور پروٹوکول کے شور میں ہے۔

جہاں تک کھیل "ہشت چوکی” کی بات ہے، یہ کوئی عام کھیل نہیں۔ یہ بلوچستان کے بزرگوں کی شاموں کا ساتھی رہا ہے۔ چائے کے ہوٹلوں، درختوں کے نیچے یا بازار کے کنارے بیٹھے بزرگ جب "ہشت چوکی” کھیلتے ہیں تو ان کے اردگرد بلوچی زبان، ہنسی اور دوستی کی خوشبو پھیلتی ہے۔ مگر آج یہی کھیل جب سیاسی فیسٹیول کا حصہ بنتا ہے تو عوام کے لیے “طنز” بن جاتا ہے۔

بلوچی کہاوت “بورے اڑے ہشت” ، یعنی “جاؤ یہاں سے، نااہل” ۔ اب سوشل میڈیا پر سیاسی معنی اختیار کرچکی ہے۔ عوام اس جملے کو ان نمائندوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں جو ان کے مسائل کے حل میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ اور شاید یہی وہ لمحہ ہے جب ڈاکٹر مالک بلوچ سمیت کئی سیاسی رہنما عوام کی نظروں میں “ہشت” ہوچکے ہیں۔ یعنی کھیل کے میدان کے بجائے اب سیاست کے میدان سے بھی باہر ہوچکے ہیں۔

بلوچستان کے نوجوان روزگار کے بغیر، تاجر بارڈر بندش سے پریشان، اور طلبا تعلیم کی کمی سے مایوس ہیں۔ ان حالات میں اگر عوامی نمائندے کھیل تماشے میں مصروف ہوں تو عوام کے دلوں میں مایوسی پیدا ہونا فطری ہے۔

ڈاکٹر نور احمد بلوچ جیسے لوگ، چاہے وہ سیاسی طور پر ہار جائیں، مگر عوامی سطح پر وہ جیت چکے ہیں۔ ان کا طنز، ان کا سچ اور ان کی عوامی زبان بلوچ معاشرے کی اجتماعی سوچ کو جگا رہی ہے۔ وہ بتا رہے ہیں کہ مزاح اگر شعور کے ساتھ بولا جائے تو وہ احتجاج کی سب سے طاقتور شکل بن سکتا ہے۔

آخر میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ "بورے اڑے ہشت” اب محض ایک کہاوت نہیں بلکہ ایک عوامی پیغام بن چکی ہے۔ جو ان تمام سیاست دانوں کے لیے ہے جو عوام کی خدمت کے بجائے تماشوں میں مصروف ہیں۔ عوام اب بیدار ہیں، اور وہ جان چکے ہیں کہ ان کے اصل نمائندے وہ نہیں جو کھیل کھیلتے ہیں، بلکہ وہ ہیں جو بولنے کی جرات رکھتے ہیں۔ چاہے وہ ڈاکٹر نور بلوچ ہوں یا کوئی اور، جو سچائی کے "ہشت چوکی” پر اپنے مہرے پوری دیانت سے چلاتا ہے۔

***

Share This Article