تربت میں سیمینار: جبری گمشدگی ایک اذیت ناک کیفیت ہے جس کا اندازہ عام لوگ نہیں لگا سکتے

ایڈمن
ایڈمن
5 Min Read

طالب علم رہنما شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کے نو سال مکمل ہونے پر تربت میں ایک سیمینار منعقد کیا گیا۔

سیمینار کے پہلے حصے میں پینل ڈسکشن کا اہتمام کیا گیا جس کے شرکا میں فوزیہ بلوچ، سیما بلوچ، لاپتہ اسرار بلوچ کی والدہ اور ایڈووکیٹ مجید دشتی شامل تھے جب کہ نصرین بلوچ نے موڈریٹر کے فرائض انجام دیے۔

سیما بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بحیثیت انسان، شبیر بلوچ ایک ایسے شخص تھے جنہوں نے اپنے پورے خاندان کی ہر حوالے سے ذمہ داری اٹھائی۔ وہ ہنس مکھ، انسان دوست اور بہترین ساتھی تھے۔ گھر میں ان کا رویہ ہمیشہ دوستانہ رہا۔ ان کی زندگی دو حصوں میں منقسم تھی، ایک سیاسی انسان کی حیثیت سے اور دوسرا ایک دوست اور ساتھی کے طور پر۔4 اکتوبر ہماری زندگی میں ایک منحوس دن کے طور پر یادگار ہے۔

سیما بلوچ نے کہا کہ ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ شبیر کے بغیر 9 سال تنہا گزارنے پڑیں گے۔ انہوں نے بلوچ اور بلوچستان کے لیے سوچا اور اپنی جوانی قربان کردی۔ شبیر کی جبری گمشدگی سے قبل بھی ہمارے گھر پر چھاپے مارے گئے، ہمیں تنگ کیا گیا لیکن شبیر ہمیشہ حوصلہ دیتے رہے۔ وہ ایک بھائی سے بڑھ کر رہنما تھے۔

ہم آج بھی شبیر کی ہنسی اور خوش گپیوں کے منتظر ہیں۔ ہم نے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے مگر انصاف نہیں ملا۔ جن اداروں نے شبیر سمیت دیگر نوجوانوں کو لاپتہ کیا ہے، انہیں خود اپنے ہی عدالتی نظام پر یقین نہیں۔ جبری گمشدگی ایک ایسی اذیت ناک کیفیت ہے جس کا اندازہ عام لوگ نہیں لگا سکتے۔

فوزیہ بلوچ شاشانی نے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ زیرِدست اقوام اور طاقتور کے درمیان رشتہ ہمیشہ آقا اور غلام کا رہا ہے اور آج بھی بلوچ کے ساتھ غلامانہ رویہ رکھا جارہا ہے۔ آقا ہماری ثقافت، تہذیب، تعلیم اور معیشت کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ جب بلوچوں نے اپنی مظلومیت کے خلاف آواز بلند کی اور ملک کے بڑے شہروں میں احتجاج کیا تو ہمیں یا تو نظرانداز کیا گیا یا جبر سے کچلا گیا۔ اسلام آباد دھرنے میں ہمارے ساتھ سب کے سامنے ظلم کیا گیا۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھی آج صرف اس وجہ سے زیرِ حراست ہیں کہ انہوں نے جبری گمشدگیوں اور ریاستی جبر کے خلاف آواز اٹھائی۔

ایڈووکیٹ مجید دشتی نے اپنے خطاب میں کہا کہ کسی بھی شخص کو حبسِ بے جا میں رکھنا غیر قانونی عمل ہے۔ 1973 کے آئین میں انسانی حقوق سے متعلق جو شقیں شامل ہیں ان کی صریح خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی قابلِ مذمت ہے۔ تقریباً بیس ہزار بلوچ اب بھی لاپتہ ہیں۔ سردار اختر مینگل نے وفاقی حکومت کو ایک فہرست دی تھی جس کے بعد تقریباً پانچ سو لاپتہ افراد بازیاب کرائے گئے۔ دنیا کے کسی بھی ملک، حتیٰ کہ یورپی یونین میں کسی شخص کو چودہ گھنٹے سے زیادہ حبسِ بے جا میں نہیں رکھا جاتا، مگر یہاں برسوں گزر جاتے ہیں۔

لاپتہ اسرار بلوچ کی والدہ نے کہا کہ 5 فروری 2015 کو کوئٹہ سے میرا بیٹا اسرار بلوچ لاپتہ کیا گیا۔ گیارہ سال گزرنے کے باوجود ہمیں اس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں دی گئی۔ ہم بہت مجبور ہیں لیکن پھر بھی ہم نے ہر ممکن جگہ آواز اٹھائی تاکہ ہمارے بیٹے کو بازیاب کرایا جا سکے۔

پینل ڈسکشن کے دوران نصرین بلوچ نے نے اس بات پر زور دیا کہ جبری گمشدگیاں نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہیں بلکہ معاشرتی اور نفسیاتی تباہی کا سبب بھی بنتی ہیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے اور جبری گمشدگیوں کے ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

لاپتہ شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف تربت میں اس وقت سیمینار جاری ہے جس کے پہلے حصہ میں پینل ڈسکشن کے بعد مقررین خطاب کریں گے۔

Share This Article