عبدالباسط زہری حرف قاضی 1981 کو خضدار کے تحصیل زہری کلی سل منجو میں حاجی محمد رمضان کے گھر پیدا ہوا۔
باسط ایک نام نہیں تھا۔باسط حرف قاضی بلوچ ایک جہد اور ایک انقلابی تحریک کا نام ہے۔
خاموشی میں ڈھکا ہوا ایک ایک ایسا شور کہ آج پورا خضدار کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے کونے کونے میں قاضی نے اپنے نظریے کو نوجوانوں کے سپرد کر دیا ہے ۔
قاضی اپنے سکول کے لائف سے ہی بہت خاموش دوست تھا ۔جو بہت کم بولتا تھا ۔لیکن استاد کے لیکچر کو سننے کے بعد جو سوال اٹھا تاتھا۔قاضی کے اس سوال میں اس کے اندر کا شعور جھلکتا تھا۔
قاضی کلاس میں کبھی فرسٹ پوزیشن نہیں لیا۔لیکن اس سنگت میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بہت گہرا تھا۔
قاضی جب B.R.C خضدار میں پڑھتا تھا تو میں نے قاضی کو اپنے باقی دوستوں سے بہت الگ پایا۔وہ سب سے منفرد تھا ۔B.R.C خضدار میں ہاوؤسز بناۓ گئے تھے۔اور جن کو مختلف نام دیۓ تھے۔گرین،یہلو،ریڈ۔ تو ان میں یہلو ہاوؤس قاضی کا تھا۔تو قاضی نے اپنے ہاووس کو مختلف بنانے کے لئے سب لڑکوں سے پیسے اکٹھے کیے اور یہلو رنگ کے وردی بناۓ اپنے ہاوؤس کے لڑکوں کے لئے۔اس قاضی کے لڑکوں کے ہاوؤس کے جتنے بھی ممبرز تھے وہ پورے B.R.C کالج میں الگ تھے ۔
میں آج پھی کہتاہوں کہ قاضی میں سوچنے ،سمجھنے کی مکمل صلاحیت رکھتا تھا۔
میں اس وقت دنگ رہ گیا جب مجھے پتہ چلا کہ عبدالباسط زہری نے B.L.A میں شمولیت کرلیا ہے ۔قاضی اس تحریک کا وہ سپاہی تھا جس نے اپنے قومی جدو جہد کا آغاز کسی سیاسی پارٹی سے نہیں کیا بلکہ بالواسطہ مسلح تنظیم کا حصہ بن گیا ۔قاضی بہت ہی پختہ اور مسح تنظیم کے تینیکوں کو سمجھنے ایک باصلاحیت جنگجو تھا۔ہم تمام ساتھیوں کا گمان ہی نہیں تھا کہ اس قدر خامشی کے ساتھ اپنے قومی خدمات کو سر انجام دیتے ہوۓ اس بلندی تک پہنچ چکا ہے ۔
جب 2009 اور 2013 کے دوران اس ریاست کے بناۓ ہوۓ ڈیتھ اسکواڈ کے غداروں پر حملے شروع ہونے لگے اور انھیں موت کے گھاٹ اتارتے گئے تو B.L.F چیرمین ڈاکٹر اللہ نے نذر نے اپنے جہدکار اور گوریلا سپاہیوں کو کہاکہ جو حملے خضدار میں دشمن کے پہ ہو رہے ہیں وہی حملے یہاں دشمن پہ کر کے آؤ۔اور اس وقت خضدار کو ہلا کے رکھنےوالا کوئی اور نہیں جہلاوان کا نرمزار عبدالباسط حرف قاضی تھا۔
تحریک کے اعلی کمانڈر قاضی کو استاد اسلم کا دست راست کہا کرتے ہیں۔
بقول قاضی لیڈر وہ ہوتا ہے جو پورے معاشرے کو جنجھوڑ کے رکھ دیں پورے معاشرے کو ایسا ہلا کے رکھ دیں کہ پورا قوم متحرک ہو ۔
بقول قاضی کہ جب میں اپنی جدو جہد کا اس اس تحریک کا حصہ بنا تو سب سے پہلے میری ماں مجھے پہچان گئی کہ میں ایک بلوچ قومی سپاہی ہوں۔
سمیع بلوچ اس قومی جدوجہد میں اس تحریک میں قاضی کا سب سے قریبی ساتھی تھا۔
قاضی ایک اکثر کہتا تھاکہ جتنے کم لوگ آپ کو جانیں گےاتنا ہی ذیادہ آپ کام کر سکیں گے۔قاضی اپنے فیصلوں پر ایک اٹل رہینے والاایک جنگجو کمانڈر تھا۔
اس جنگ میں اس دشمن ریاست نے اس کے خون کے رشتوں کو ایک ایک کرے شہید کرتا رہا ۔عبدالحمید زہری قاضی کا سب سے چھوٹا بھائی جس کو اس ریاست نے شہید کر دیا۔عبدالحئی بھی قاضی سے چھوٹا بھائی نہیں بلکہ قاضی کا نظریاتی سنگت اور ایسا سنگت شاہد ہی اس کا مثال تاریخ میں کم ملے ۔
قاضی اور اس کا چھوٹا بھائی عبدالحئی جب اکٹھے ہوتے تھے تو ان نظریاتی سنگتوں کا فکر صرف جہد تھا ان سنگتوں میں سے ایک پہرہ دیتا دوسرا سو جاتا۔
اس دشمن ریاست نے قاضی کے والد محمد رمضان کو شہید کر دیا ۔اس کٹھن اور تکلیف دہ راستے،اس جہد میں قاضی نے اپنا ایک سے بڑھ کے ایک رشتے کو کھویا ہیں ۔ان سب سے باوجود ان کا ایک ہی فیصلہ جو وہ لے چکا تھا وہ اپنے آخری گولی کے فلسفے پر قائم تھا۔
اس ظالم ریاست نے قاضی کو اس کے کئی خاندان کے اراکین کے ذریعے ان پیکش بھیجتا رہا۔لیکن قاضی وہ جنگجو تھا ایک اعلی ظرف اور اپنے فیصلوں پہ اٹل رہنے والا کہ اس ریاست کے ہر پیشکش کو ٹھکراتا رہا۔اس نے قومی جدو جہد اپنی سرزمین پر خود کو قربان کرنا اپنا اولین فرض بنا لیاتھا۔
***