بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما سمی دین بلوچ نے کہا ہے کہ خضدار کی رہائشی صغریٰ بی بی کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ ایک اور لرزہ خیز سانحہ ہے۔ صغریٰ بی بی نے بتایا کہ بااثر شخص اسامہ خدرانی نے انہیں اغوا کیا، اغوا کے بعد شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور نشہ آور ادویات کے زیرِ اثر مبینہ طور پر زیادتی کا شکار بنایا۔ چند گھنٹوں بعد انہیں رہا کر دیا گیا، مگر ہر بار کی طرح اس بار بھی ملزم کے اثر و رسوخ کے باعث کسی مؤثر قانونی کارروائی کی توقع نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلا واقعہ نہیں۔ اسی خضدار شہر میں اس سے قبل ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں نے ایک خاتون کو اغوا کرکے زبردستی شادی کی کوشش کی تھی، لیکن آج تک ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی۔
بی وائی سی رہنما نے کہا کہ بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل، خواتین کے اغوا اور ریاستی اہلکاروں کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے واقعات روز بروز بڑھ رہے ہیں، مگر قانون نافذ کرنے والے ادارے خاموش تماشائی ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ صوبائی وزراء زرینہ مری کے حوالے سے پریس کانفرنسیں کر کے یہ ثابت کرنے میں تو سرگرم رہتے ہیں کہ زرینہ کا کوئی وجود نہیں، مگر بلوچ خواتین پر ڈھائے جانے والے ظلم و جبر پر ان کی زبانیں بند ہو جاتی ہیں۔
سمی بلوچ نے مزید کہا کہ یہ حقیقت نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ جب خواتین کے اغوا، قتل اور ریاستی اہلکاروں کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے واقعات عروج پر تھے، تب بھی نام نہاد حکومتی نمائندے مظلوم عورتوں کے حق میں بولنے کے بجائے ریاستی پالیسیوں کے ترجمان بن کر اس جبر کو تقویت دیتے رہے۔