بلوچستان میں سیاست کو جرم بنا دیا گیا ہے،رہنما جبری لاپتہ ہیں،این ڈی پی

ایڈمن
ایڈمن
5 Min Read

نیشنل ڈیموکرییٹک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے غنی بلوچ کی جبری گمشدگی کو تین ماہ مکمل ہونے پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں اس وقت سیاست کے راستے مسدود کر دیے گئے ہیں۔ صرف چھے ماہ کے دوران آٹھ سو سے زائد افراد کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے، جو اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ریاست بلوچ عوام کو جمہوری اور پرامن جدوجہد سے محروم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ تمام حقیقی قوم پرست جماعتیں، طلبہ تنظیمیں، اور حتیٰ کہ علمی و ادبی سرگرمیوں میں مصروف ادارے بھی ریاستی جبر کا نشانہ بن رہے ہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے آرگنائزر سمیت درجنوں رہنما اور کارکنان کئی ماہ سے پابند سلاسل ہیں اور عدلیہ ان کی غیرقانونی نظربندی میں بار بار اضافہ کر کے اس جبر کو قانونی تحفظ دے رہی ہے۔

ترجمان نے کہا کہ اسی جبر کے تسلسل میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے جمہوری جدوجہد کے بھی رستے بند کیے جا رہے ہیں۔ پارٹی کے مرکزی رہنما اور اسکالر غنی بلوچ کی جبری گمشدگی جبر کی سنگین صورتحال کو واضح کرتی ہے جنہیں 25 مئی کو خضدار سے لاپتہ کیا گیا اور آج تین ماہ مکمل ہونے کے باوجود ان کی گرفتاری کسی فورم پر ظاہر نہیں کی گئی۔ ضلعی انتظامیہ کی خاموشی اور پولیس کا ایف سی کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے سے انکار اس بات کی نشاندہی ہے کہ فرنٹیئر کور کی پشت پناہی میں دیگر ریاستی ادارے بھی براہِ راست اس جرم میں ملوث ہیں۔ ٹرانسپورٹ کمپنی، پیٹرول پمپس اور مختلف مقامات پر نصب سی سی ٹی وی کیمرے اس کے ناقابلِ تردید شواہد پیش کرتے ہیں کہ غنی بلوچ کی جبری گمشدگی میں سیکیورٹی ادارے براہ راست ملوث ہیں۔

انہوں نے کہا کہ غنی بلوچ کی گمشدگی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے محض ایک فرد کا غائب ہونا نہیں بلکہ پوری جدوجہد پر حملہ ہے۔ وہ ایک باشعور اسکالر، کتاب دوست اور عوامی رہنما تھے جنہوں نے علم اور شعور کو بلوچ قوم کی ترقی کا راستہ قرار دیا۔ یہی سوچ انہیں نشانہ بنانے کی اصل وجہ بنی، کیونکہ ریاستی بالادست ادارے ایک باشعور بلوچستان کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے ہر کارکن ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اور غنی بلوچ کی بازیابی کے لیے ہم کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ مزید براں پارٹی کے ایک اور مرکزی رہنما ثنا بلوچ کو 10 اگست کو ملتان ایئرپورٹ پر ایف آئی اے نے حراست میں لیا اور اب تک ان کی گرفتاری ظاہر نہیں کی گئی۔ یہ واقعہ اس حقیقت کو مزید واضح کرتا ہے کہ بلوچستان میں سیاست کو جرم بنا دیا گیا ہے اور سیاسی کارکنوں کو عدالتوں میں پیش کرنے کے بجائے خفیہ طور پر غائب کیا جا رہا ہے۔اس کے علاوہ کراچی، بارکھان اور بلوچستان کے دیگر علاقوں سے بھی متعدد سیاسی کارکنان جبری طور پر لاپتہ ہیں، جس سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ یہ عمل ایک فرد یا ایک جماعت تک محدود نہیں بلکہ پورے بلوچ معاشرے کو جبر کے ذریعے خاموش کرنے کی منظم پالیسی ہے۔

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی اعلان کرتی ہے کہ ہم اپنے رہنماؤں اور کارکنوں کی بازیابی کے لیے ہر سطح پر جدوجہد جاری رکھیں گے۔ غنی بلوچ سمیت دیگر سیاسی کارکنان کی جبری گمشدگی ہماری جدوجہد کا اہم جز ہیں اور ان کی واپسی تک ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ جبری گمشدگیوں کے ذریعے ہمارے حوصلے توڑے نہیں جا سکتے، بلکہ یہ عمل ہماری جدوجہد کو مزید مضبوط اور منظم کر رہا ہے۔

Share This Article