جبری لاپتہ پروفیسر عثمان قاضی کی گرفتاری ظاہر، اعترافی ویڈیوبھی جاری

ایڈمن
ایڈمن
11 Min Read

بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ مینجمنٹ سائنسز(بیوٹمز) کے پروفیسر عثمان قاضی جنھیں 12 اگست کی شب پاکستانی فورسز نے کوئٹہ میں ان کے گھر سے بھائی سمیت حراست میں لیا گیا تھا کی گرفتاری حکومت کی طرف سے اب ظاہر کی گئی ہے۔

ان کی گرفتاری کا اعلان پیر کو وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ میں ایک پریس کانفرنس میں کیا گیا جس سے نہ صرف کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے خطاب کیا بلکہ عثمان قاضی کی ایک ویڈیو بھی منظر عام پر لائی گئی جس کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ انھوں نے شدت پسندی کے مختلف واقعات میں سہولت کاری کا اعتراف کیا ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل بھی تربت کی ایک خاتون عدیلہ کو اغوا کر کے ٹی وی پر "خودکش بمبار” کے طور پر پیش کیا گیا لیکن بعد میں کوئی ثبوت نہ ملنے پر معاملہ دبا دیا گیا۔ اسی طرح دو بچوں کی ماں ماہل بلوچ کو بھی دہشتگرد بنا کر پیش کیا گیا مگر عدالت میں ثبوت نہ ہونے پر رہا کرنا پڑا۔

اپنی پریس کانفرنس میں وزیر اعلیٰ بلوچستان نے عثمان قاضی کی گرفتاری کو خفیہ اداروں اور سی ٹی ڈی کی اہم کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے بلوچستان میں ’دہشت گردی‘ کے خاتمے کے حوالے سے تحقیقات میں بڑی مدد ملے گی۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے ایک ٹویٹ کے مطابق ڈاکٹر عثمان قاضی کو ان کے بھائی جبران احمد کے ساتھ ان کے گھر سے اٹھایا گیا۔ تاہم سرکاری حکام کی جانب سے پریس کانفرنس میں ان کے بھائی کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا گیا۔

یونیورسٹی کے ایک اور لیکچرار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’ابھی سرکاری حکام کی جانب سے ان کا ایک اعترافی بیان جاری کیا گیا ہے جس پر ہم حیران ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عثمان قاضی گذشتہ سات آٹھ سال سے یونیورسٹی میں پڑھا رہے ہیں۔ وہ کلاسوں کے حوالے سے ریگولر تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے ساتھ ہماری جو بھی نشست و برخاست ہوتی تھی اس میں نہ وہ کسی کالعدم تنظیم کے حوالے سے بات کرتے تھے اور نہ ہی ہم نے ان میں کسی کالعدم تنظیم یا دہشت گردی کی کسی سرگرمی کی جانب جھکائو محسوس کیا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے ان کے حوالے سے ایک بیان جاری کرتے ہوئے یہ کہا گیا تھا کہ انھیں ان کے بھائی کے ساتھ جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔

حکام کی جانب سے ان کے اعترافی بیان جاری کرنے کے بعد یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے کہا کہ ان کا یہ بیان ان کے مبینہ اغوا کے بعد دوران حراست لیا گیا ہے۔

انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’ان کو بھائی کے ہمراہ پہلے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور تاحال ان کے بھائی کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ہوسکتا ہے کہ بھائی کے حوالے سے یا کسی اور حوالے سے ان پر دبائو ڈال کر یہ بیان لیا گیا ہو‘۔

انھوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے عدالت سے پہلے ان کا میڈیا ٹرائل کیا گیا جو کہ خود قانون کی خلاف ورزی ہے۔

انھوں نے کہا کہ جس طرح ایک پی ایچ ڈی ہولڈر اور یونیورسٹی کے ٹیچر کو اٹھایا گیا تو اس پر یونیورسٹیوں کے اساتذہ میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی تھی اور سو کے قریب اساتذہ نے وائس چانسلر کو لکھا تھا کہ عثمان قاضی کو منظر عام پر لایا جائے جس کے باعث حکومت پر دباؤ تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’آج پریس کانفرنس میں ان کا ویڈیو بیان پیش کرنے سے ایک روز پہلے جو جعلی اکائونٹس ہیں ان سے ان الزامات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ اغوا اور پھر حراست کے دوران جو بیان لیا جاتا ہے اس کی کوئی قانونی حیثیت اور اہمیت نہیں ہے‘۔

بی وائی سی کی رہنما کا کہنا تھا کہ اگر کوئی شخص کسی غیر قانونی کام ملوث بھی ہے تو قانون کی نظر میں یہ بات درست نہیں ہے کہ عدالت سے پہلے ان کا میڈیا ٹرائل کیا جائے۔

پریس کانفرنس کے بعد سہہ پہر کو عثمان قاضی کو انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا گیا جنھیں عدالت نے 14 روزہ ریمانڈ پر سی ٹی ڈی کے حوالے کیا۔

پریس کانفرنس میں میڈیا کے سامنے عثمان قاضی کا جو ویڈیو بیان پیش کیا گیا اس میں بیان کا آغاز انھوں نے بسم اللہ الرحمان الرحیم پڑھ کر کیا۔

اس بیان میں وہ کہہ رہے تھے کہ جب وہ پی ایچ ڈی کر رہے تھے تو 2020 میں ان کا اسلام آباد جانے کا اتفاق ہوا، جہاں قائد اعظم یونیورسٹی میں تنظیم کے تین لوگوں سے رابطہ ہوا جن میں سے دو بعد میں مارے گئے۔

ویڈیو بیان کے مطابق ایک شخص ’ڈاکٹر ہیبتان عرف کالک نے حال احوال کرنے کے بعد مجھے تنظیم میں شامل کیا۔ میرا رابطہ کالعدم بی ایل اے کے بشیر زیب سے ٹیلی گرام کے ذریعے کرایا۔ جب میں کوئٹہ آیا تو مجھ سے تین کاموں کی سہولت کاری لی گئی‘۔

حکومت کی جانب سے ریلیز کی گئی ویڈیو میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ’سہولت کاری کا ایک کام یہ تھا کہ قلات میں بوہیر نامی بی ایل اے کا ایک ریجنل کمانڈر لڑائی میں زخمی ہوا تھا۔ ان کو میں نے جگہ دی تھی۔ علاج کے بعد وہ واپس چلا گیا۔ اس کے بعد گذشتہ سال نومبر میں ہیبتان نے بتایا کہ ایک اور شخص آئے گا جنھیں آپ نے جگہ دینا ہے۔ وہ رفیق بزنجو تھا جنھیں دو روز کے بعد انھوں نے کسی اور شخص کے حوالے کیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ریلوے سٹیشن پر خود کش حملہ کر دیا جس میں سکیورٹی اہلکاروں اور معصوم شہریوں کے جانوں کا ضیاع ہوا‘۔

ڈاکٹر عثمان کے ویڈیو بیان کے مطابق اس کے بعد ہیببتان نے ایک اور ٹارگٹ دیا جو کہ نعمان عرف پیرک کی حوالگی کا تھا۔ ان کے مطابق ’وہ سات آٹھ دن میرے پاس رہا جس کو میں نے بعد میں جمیل عرف نجیب نامی شخص کے حوالے کیا۔ نعمان عرف پیرک کو 14 اگست کے کسی ایونٹ میں استعمال کیا جانا تھا۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’انھوں نے ایک پسٹل خرید کر ایک خاتون کو دیا جس نے اسے تنظیم کے ڈیتھ سکواڈ کے حوالے کیا تھا۔ وہ پسٹل سکیورٹی فورسز اور سرکاری ملازمین کو ٹارگٹ کرنے میں استعمال ہوا تھا‘۔

حکومت کی جانب سے سامنے لائی گئی ویڈیو میں ڈاکٹر عثمان سہولت کاری کا اعتراف کر رہے ہیں اور یہ بیان دے رہے ہیں کہ انھوں نے یہ کام کیے ہیں، تنظیم کے ساتھ منسلک رہے ہیں اور یہ سہولت کاری کی ہے حالانکہ ریاست نے سب کچھ دیا، عزت دی، وقار دی۔

اس ویڈیو میں وہ بتاتے ہیں کہ ’خاندان کو دیکھیں تو میری اہلیہ کو بھی نوکری دی ہے۔ اس کے باوجود میں نے قانونی کی خلاف ورزی اور ریاست کے ساتھ غداری کی ہے جس پر میں تہہ دل سے شرمندہ ہوں اور ایسے کاموں کے ساتھ منسلک رہنے پر افسوس ہے‘۔

ویڈیو بیان کے مطابق ’اس ویڈیو اور پیغام دینے کا مقصد یہ ہے ہے کہ جو آئندہ آنے والی نسلیں ہیں، نوجوان اور جو طالب علم ہیں وہ اپنے آپ کو اس طرح کے انتشار پھیلانے والی تنظیموں سے بچائیں۔‘

ماضی میں بلوچستان میں سی ٹی ڈی یا پولیس کی بعض کیسز میں جن لوگوں کا اعترافی بیان پیش کیا جاتا رہا ہے ان میں سے بعض بعد میں مشکوک مقابلوں میں مارے جاتے رہے ہیں جن میں سے ایک واقعہ کم سن طالب علم کے اغوا میں گرفتار ہونے والے مرکزی ملزم کا تھا۔

گذشتہ ماہ پریس کانفرنس میں اعترافی بیان کے چند روز بعد میڈیا کو سرکاری حکام کی جانب سے یہ بتایا گیا کہ انھیں ان کے دوسرے ساتھیوں کی نشاندہی کے لیے لے جایا جا رہا تھا کہ وہ اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے مارا گیا۔

تاہم عثمان قاضی کے اعترافی بیان پیش کرنے کے چند گھنٹے بعد ان کو سیشن کورٹ میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کوئٹہ ٹو میں انتہائی سخت سکیورٹی میں پیش کیا گیا۔

عدالت کے جج محمد علی کاکڑ نے ملزم کو 14 روزہ ریمانڈ پر سی ٹی ڈی کے حوالے کیا۔ ریمانڈ حاصل کرنے کے بعد ملزم کو سخت سکیورٹی میں عدالت سے واپس لے جایا گیا۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان نے پریس کانفرنس میں عثمان قاضی کی گرفتاری کو خفیہ اداروں کی ایک بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملزم نے مبینہ طور پر یہ بھی اعتراف کیا کہ انھوں نے گذشتہ سال ریلوے سٹیشن پر خود کش حملے کے بمبار کی سہولت کاری کی تھی۔

وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ ملزم نے ایک خاتون کو پسٹل بھی خرید کر دی تھی جس کے ذریعے وہ ٹارگٹ کلنگ کرتی تھیں اور پھر پسٹل ان کو واپس کر دیتی تھیں۔

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ یہ بیانیہ اپنایا جاتا ہے کہ بلوچستان میں احساس محرومی ہے جس کی وجہ سے لوگوں نے تشدد کا راستہ اختیار کیا ہے۔

Share This Article