بلوچ یکجہتی کمیٹی( بی وائی سی ) اپنے ایک بیان میں پروفیسر ڈاکٹر عثمان بلوچ کی جبری گمشدگی کوبلوچ اساتذہ کی عظمت اور علمی وقار پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ریاست کے نئے قانون کے تحت ہر بلوچ بلاتفریق مشکوک شخص ہے۔
ترجمان نے کہا کہ 12 اگست کی رات، ریاستی سیکورٹی اداروں نے کوئٹہ کے علاقے افنان ٹاؤن سے سرکاری جامعہ بیوٹمز کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عثمان قاضی اور ان کے بھائی جبران بلوچ کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا۔ یہ قدم نہ صرف بلوچستان میں بلوچ قوم کے خلاف جاری ریاستی مظالم کا تسلسل ہے، بلکہ تعلیمی اداروں کی آزادی، اساتذہ کی حرمت اور علمی وقار پر ایک کھلا حملہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ پروفیسر عثمان ایک دہائی سے زائد عرصے سے تدریس اور تحقیق کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے مضمون کے ماہر ہیں بلکہ ایک ایسے استاد ہیں جو طلبہ کی رہنمائی اور معاشرتی شعور کی بیداری میں نمایاں کردار ادا کرتے آرہے ہیں۔ ان کی علمی دیانت، محنت اور انسان دوستی کی گواہی بیوٹمز کے ہر طالب علم، استاد اور علمی حلقہ دیتی ہے۔ ایسے استاد کو، جو اپنے علم اور کردار سے قوم کا قیمتی سرمایہ ہے، رات کی تاریکی میں گھر سے اٹھا لینا اور اہلِ خانہ کو کسی بھی قسم کی معلومات فراہم نہ کرنا انسانی وقار، آئینی حق اور بنیادی شہری آزادیوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ یہ واقعہ صرف ایک فرد کی گمشدگی نہیں، بلکہ ایک پیغام ہے کہ بلوچ قوم کا ہر فرد، خواہ وہ استاد ہو، طالب علم یا مزدور، صرف اپنی شناخت کی بنیاد پر ریاست کی نظر میں مشکوک ہے۔ اس جبر کا مقصد ایک پورے تعلیمی ماحول کو خوف اور خاموشی میں ڈبو دینا ہے، تاکہ سوال پوچھنے اور سچ بولنے والے ہر شخص کو عبرت کا نشان بنایا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اساتذہ صرف درسگاہوں کے ملازم نہیں، بلکہ قوم کے معمار اور رہبر ہیں۔ کسی استاد کی جبری گمشدگی آنے والی نسلوں کے مستقبل پر حملے کے مترادف ہے۔ ریاست کو یہ سمجھنا ہوگا کہ تعلیمی اداروں اور اساتذہ کی عزت کو پامال کر کے امن قائم نہیں ہو سکتا۔ امن صرف اس صورت میں ممکن ہے جب آئین و قانون پر حقیقی عملدرآمد اور انصاف کے معیار کو پورا کیا جائے۔
ترجمان نے کہا کہ ہم انسانی حقوق کے عالمی اور مقامی اداروں، سول سوسائٹی، طلبہ تنظیموں اور تمام اساتذہ یونینز سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ پروفیسر ڈاکٹر عثمان قاضی اور ان کے بھائی کی فوری بازیابی کے لیے متحد ہو کر آواز بلند کریں۔ یہ جدوجہد صرف ایک خاندان کی نہیں، بلکہ پورے معاشرے کے علمی، اخلاقی اور انسانی وقار کی جنگ ہے۔