اسلام آباد میں دھرنے کا بیسویں روز ، ریاستی ادارے مظاہرہ ختم کرنے لئے متحرک

ایڈمن
ایڈمن
4 Min Read

پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں بلوچ لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے گرفتار قائدین کی رہائی کے لیے جاری پرامن دھرنا آج 20ویں روز میں داخل ہو گیا ہے۔

شدید بارش، جھلسا دینے والی گرمی، مسلسل دھمکیوں اور ریاستی دباؤ کے باوجود مظاہرین جن میں مائیں، بہنیں، بزرگ اور بچے شامل ہیں—اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے پرامن انداز میں سراپا احتجاج ہیں۔

دوسری جانب دھرنے کے خاتمے کےلئے ریاستی ادارے متحرک ہوگئے ہیں۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ صرف انصاف اور اپنے لاپتہ رشتہ داروں کی واپسی کے لیے اسلام آباد آئے ہیں، مگر انہیں مسلسل ریاستی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سب سے افسوسناک امر یہ ہے کہ انہیں اسلام آباد پریس کلب کے سامنے دھرنے کی اجازت نہیں دی گئی، حالانکہ یہی جگہ ہمیشہ مظلوموں اور احتجاج کرنے والوں کی آواز بلند کرنے کا مرکز رہی ہے۔

دھرنے میں شریک خواتین کا کہنا ہے کہ اب نہ صرف پریس کلب کے سامنے کا راستہ بند ہے، بلکہ انتظامیہ انہیں اس سڑک سے بھی ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے جہاں وہ اس وقت بیٹھے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ طرزِ عمل نہ صرف آئینی حقوق کی پامالی ہے بلکہ انسانی وقار کے بھی خلاف ہے۔

مظاہرین نے واضح کیا کہ انہوں نے احتجاج کے دوران کوئی غیر قانونی عمل نہیں کیا، نہ سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا اور نہ کسی شہری کو اذیت دی، پھر بھی انہیں دھمکایا جا رہا ہے اور زبردستی دھرنا ختم کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق اگر انہیں شروع دن سے پرامن طریقے سے پریس کلب کے سامنے بیٹھنے دیا جاتا تو عوامی راستے بند نہ ہوتے اور عام شہریوں کو بھی تکلیف نہ پہنچتی۔

بلوچ مظاہرین کا مؤقف ہے کہ ان کے پیارے برسوں سے لاپتہ ہیں اور ان کی جدوجہد کسی ذاتی یا سیاسی مفاد کے لیے نہیں بلکہ انسانیت، انصاف اور جمہوریت کی بقا کے لیے ہے۔ ان کا مطالبہ سادہ اور واضح ہے کہ بی وائی سی کی قیادت کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے اور جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔

انہوں نے اسلام آباد کے شہریوں سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کی مشکلات کو سمجھتے ہیں، لیکن اصل ذمہ داری ریاست اور حکومت پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے پرامن احتجاج کو روکنے کے لیے تمام راستے بند کیے۔ مظاہرین نے کہا کہ وہ اب بھی چاہتے ہیں کہ انہیں قانونی طور پر پریس کلب کے سامنے بیٹھنے دیا جائے تاکہ عوام کو مزید مشکلات نہ ہوں اور وہ اپنی بات پرامن طریقے سے دنیا تک پہنچا سکیں۔

آخر میں مظاہرین نے اعلان کیا کہ وہ اپنی پرامن جدوجہد اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے، اور اگر ریاست نے جبر کا دائرہ مزید وسیع کیا تو یہ احتجاج بڑھے گا، آوازیں مزید بلند ہوں گی، اور لوگ مزید شامل ہوں گے۔

Share This Article