بلوچی اکیڈمی جنرل باڈی اجلاس: زبان کی ترویج کے بند پروجیکٹس پر دوبارہ کام شروع کرنیکا فیصلہ

ایڈمن
ایڈمن
4 Min Read

بلوچی اکیڈمی کا ستاسٹھواں جنرل باڈی اجلاس اتوار کے روز بلوچی اکیڈمی کمپلکس میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں بلوچی اکیڈمی سالانہ کارکردگی رپورٹ کے علاوہ مالی و انتظامی کاکردگی ، کتابوں کی چھپائی اور دیگر امور پر بحث و مباحثہ کیا گیا۔

جنرل باڈی اجلاس میں ممبران نے بلوچی زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے لیے تجاویز پیش کیے گئے۔

چیئرمین ہیبتان عمر کی سربراہی میں منعقدہ جنرل باڈی میں گزشتہ سال کے دوران منعقد کیے گئے ادبی سرگرمیوں، تقریبات، نشر و اشاعت اور پراجیکٹس کے بارے میں ممبران کو آگہی دی گئی۔

اس کے علاوہ سالانہ رپورٹ میں بلوچی اکیڈمی کے سالانہ اخراجات کے بارے میں بریفنگ دی گئی اور منظوری لی گئی۔

جنرل سیکریٹری عرفان جمالدینی نے سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سرفراز بگٹی کی سربراہی میں بلوچستان سرکار نے اکیڈمی کی گرانٹ کو بحال کردیا ہے جس پر اکیڈمی کے اراکین نے بلوچستان حکومت کا اظہار تشکر کیا ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچی اکیڈمی نے بلوچی زبان کو ڈیجیٹلائزیشن اور مشین لرننگ کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے بلوچی زبان کے لیے نیچرل لینگویج پراسیسنگ (این ایل پی) پر کام کا آغاز کیا گیا تھا لیکن گرانٹ کی کٹوتی کے سبب پراجیکٹ کو معطل کیا گیا تھا لیکن اب اس پر دوبارہ کام کا آغاز کیا گیا ہے۔ جس کے تحت بلوچی زبان کو سٹینڈرائزیشن اور جدید ٹیکنالوجی کے عین مطابق ترقی دی جائے گی۔ اسی طرح انسائیکلوپیڈیا پراجیکٹ پر بھی دوبارہ کام شروع کیا گیاہے۔

جنرل باڈی اجلاس میں ممبران نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ سرکاری اسکولوں میں بلوچی مضمون کا نصاب بنانے اور بلوچی کو پڑھانے کے لیے بلوچی ٹیچر تعنیات کیے جائیں۔

اکیڈمی کے ممبران نے مطالبہ کیا اسکولوں میں بلوچی زبان کو پڑھانے کے لیے بلوچی ٹیچر تعینا ت کیے جائیں۔اسی طرح کالج لیول میں بلوچستان کے مختلف کالجز کے لیے بلوچی کی خالی اسامیوں کو پبلک سروس کمیشن کے تحت مشتہر کرکے استاد مقرر کیے جائیں۔

اکیڈمی کے ممبران نے اس بات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہ بلوچستان کی یونیورسٹیوں میں زبان و ادب پڑھانے کے ڈیپارٹمنٹس کو بند کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے جو کہ قابل مذمت ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت زبان و ادب کے ڈیپارٹمنٹس کو مزید مالی اور افرادی طور پر مستحکم کیا جائے۔

ممبران نے حکومت بلوچستان اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ بلوچی اکیڈمی کی ادبی اور تحقیقی پراجیکٹس خاص کر بلوچی این ایل پی پراجیکٹ کے لیے اضافی فنڈز کا اجراہ کیا جائے کیونکہ موجودہ مالی وسائل میں ایسے پراجیکٹ پر کام کرنا ممکن نہیں ہے۔

بلوچی اکیڈمی کے ممبران نے حکومت بلوچستان سے مطالبہ کیا کہ محکمہ سکول ایجویشن بلوچستان کے قومی زبان و ادب کے اداروں کی چھاپی گئی کتابوں کو اسکولوں اور کالجوں کی لائبریریوں کے لیے مختص کرے۔ اسی طرح کلچر ڈیپارٹمنٹ پبلک لائبریریوں کے لیے انہی اداروں سے کتابیں خرید کر لائبریری کو فراہم کرے تاکہ نوجوان ان کتابوں سے استعفادہ کریں۔

اکیڈمی کے ممبران نے مجلس عاملہ کو ہدایت کی کہ وہ بلوچی زبان و ادب کی ترقی کے لیے اپنی جدوجہد میں تیزی لائیں، بچوں کے لیے تعلیمی مواد کی تیاری، غیر ملکی زبانوں کی کلاسیک تخلیقات کو بلوچی زبان میں ترجمہ اور بلوچی کے شاہکار ادبی و تاریخی مواد کو انگریزی یا دیگر زبانوں میں ترجمہ، بلوچی کے لہجوں اور ادبی تاریخ کے بارے میں تحقیق و اشاعت اور بلوچستان کی تاریخ کے بارے میں اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی۔

Share This Article