امریکی سینیٹ میں کئی گھنٹوں کے تعطل کے بعد ریپبلکنز نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیکس اور اخراجات سے متعلق میگا بل کو منظور کر لیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ مجوزہ قانون نے ایک اہم رکاوٹ کو دور کر دیا ہے۔
24 گھنٹے سے زیادہ کی بحث کے بعد ’دی ون بگ بیوٹیفل بل ایکٹ‘ نائب صدر جے ڈی وینس کے ووٹ کے ساتھ منظور کر لیا گیا۔
اب یہ بل ایوان زیریں کی طرف واپس جائے گا جہاں اسے زیادہ مخالفت کا سامنا ہے۔ اس سے قبل ایوان نمائندگان کے ریپبلکن ارکان نے ایک ووٹ کے فرق سے اس کی منظوری دی تھی۔
ٹرمپ نے ریپبلکن پارٹی کے زیر کنٹرول کانگریس کو 4 جولائی تک کی ڈیڈ لائن دی تھی تاکہ وہ بل کو حتمی قانون کی شکل دے سکیں۔
وینس نے منگل کی سہ پہر کہا کہ ’ترمیم شدہ بل منظور ہو گیا ہے۔‘ اُن کے ایسے کہنے پر سینیٹ میں موجود ریپبلکنز نے تالیاں بجائیں جبکہ ڈیموکریٹس کی جانب سے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔
ٹیکس، سماجی پروگراموں اور اخراجات کی سطح پر تنازعات نے ریپبلکنز کے لیے چیلنجز پیدا کر دیے تھے۔ جس کی وجہ سے پیش رفت رک گئی تھی اور ٹرمپ کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کیا گیا تھا کہ بل کی منظوری کے لیے ان کی ڈیڈ لائن کو پورا کرنا ’بہت مشکل‘ ہوگا۔
پارٹی کو متحرک کرنے کی کوششوں کے باوجود سینیٹ کے اکثریتی رہنما جان تھون کو تین ریپبلیکن ارکان مینے کی سوسن کولنز، شمالی کیرولائنا کے تھوم ٹیلس اور کینٹکی کے رینڈ پال کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ کولنز، ٹیلس اور پال نے بل کے خلاف ووٹ دینے میں تمام ڈیموکریٹس کا ساتھ دیا۔
کئی دنوں کے مذاکرات کے بعد، ریپبلکن رہنما بالآخر الاسکا کی سینیٹر لیزا مرکووسکی کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ جو اپنی ریاست میں میڈیکیڈ میں کٹوتی کے اثرات کے خدشات کی وجہ سے ان کی حمایت سے انکار کر رہی تھیں۔
فلوریڈا میں تارکین وطن کی حراستی مرکز کے دورے کے دوران امریکی صدر ٹرمپ نے بل کی منظوری پر خوشی کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ ایک بہت اچھا بل ہے۔ اس میں سب کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور ہے۔‘
یہ قانون سازی، جسے ٹرمپ کی دوسری مدت کے ایجنڈے کا سنگ بنیاد سمجھا جاتا ہے، ٹیکسوں میں مستقل طور پر بڑی کٹوتی کرے گی جو عارضی طور پر اس وقت نافذ کی گئی تھیں جب وہ پہلی بار اقتدار میں تھے۔