تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہوتا ہے کہ قابض اقوام اور ریاستوں نے زیردست اقوام کو جاہل، پسماندہ، غیر مہذب، کمتر اور ایک آزاد ریاست چلانے کے لئے نا اہل قرار دے کر اپنے قبضہ گیریت کو خدا/ مذہب/ یا کسی اور نظریہ و نسبت سے اپنا حق و ذمہ داری قرار دیتی رہی ہیں۔ وہ قبضہ گیریت، نوآبادیاتی حکمرانی اور اقتصادی لوٹ کھسوٹ کے خلاف کسی بھی زیردست قوم کی مخالفت اور مزاحمت کو ترقی و تہذیب کی مخالفت کہہ کر اسے بدنام کرنے اور بزور طاقت روکنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہے ہیں۔ قبضہ گیریت اور نوآبادیاتی لوٹ کھسوٹ کے خلاف زیر دست اقوام کے جائز اور فطری مزاحمت کو دہشتگردی کہہ کر جرم قرار دینا اور اس کے خلاف ریاستی طاقت و تشد کے استعمال کو نظم و نسق برقرار رکھنے کا خوبصورت قانونی و اخلاقی پیراہن پہنا دینا استعماری قبضہ گیروں کی ایک پرانی مگر بنیادی پالیسی اور ہتھکنڈہ رہی ہے۔
قابض و قبضہ گیر ریاستوں، آمر، مطلق العنان، اور فاشسٹ حکمرانوں کے پاس اپنے مخالفین کی آواز دبانے کا اولین اور آخری ہتھیار طاقت و تشدد کا استعمال ہی ہے۔ بلوچستان پر جبری قبضہ سے لے کر آج تک پاکستان بھی بلوچ قوم کے خلاف، اس کی آزادی کی امنگ، آزادی کی تحریک، جمہوری اور انسانی حقوق کیلئے اٹھنے والی ہر ایک آواز کو صرف طاقت کے استعمال سے روکنے، دبانے اور کچلنے کی کوشش کرتی آرہی ہے۔ رواں صدی کے آغاز پر جب بلوچ قومی تحریک آزادی ایک بار پھر پاکستان کی جعلی اور جھوٹی جمہوری و پارلیمانی سیاست کی بھول بھلیوں سے جدا آزادی کے واضح ایجنڈا کے ساتھ کھل کر سیاسی میدان عمل میں اترا تو پاکستان نے بھی بلا پس و پیش طاقت و تشدد کے ذریعے تحریک آزادی کو جواب دینے کی پالیسی اختیار کیا۔
غالباً 2001 میں بی ایس او (بی این ایم ڈاکٹر حی کے اسٹوڈنٹ ونگ) سے ایک دھڑا ڈاکٹر اللّہ نذر بلوچ کی سربراہی میں بی ایس او (آزاد) کے نام سے الگ ہوا اور 2003 میں بلوچستان نیشنل موومنٹ (حی گروپ) کے متحرک رہنماؤں، کیڈرز اور کارکنوں کی ایک بڑے دھڑے نے پارٹی کے سابق مرکزی سینئر وائس چیئرمین واجہ غلام محمد بلوچ کی قیادت میں اس وقت بی این ایم کو برقرار رکھنے اور پاکستان کی جعلی جمہوری سیاسی دھارے میں بے سمت تیرنے کے لا حاصل مشق کی بجائے بلوچ قومی تحریک آزادی سے جُڑے رہنے کا اعلان کردیا جب بلوچستان نیشنل موومنٹ (ڈاکٹر عبدالحی گروپ) اور بی این ڈی پی نے انضمام کرکے نیشنل پارٹی پاکستان تشکیل دی، جس کی قیادت نے پہلی بار کھل کر بلوچ تحریک آزادی سے لاتعلقی اور پاکستانی سیاست کے مرکزی دھارے میں چپو چلانے کا اعلان کیا۔ واجہ غلام محمد بلوچ کی قیادت میں بی این ایم نے 2004 میں اپنا مرکزی کنونشن منعقد کیا۔ کنونشن کے شرکاء نے واجہ غلام محمد بلوچ کو پارٹی کا مرکزی صدر اور رحیم بلوچ ایڈووکیٹ ( مضمون ہذا کا راقم) کو سیکریٹری جنرل منتخت کیا۔ کنونشن کے شرکاء نے پارٹی کا نام بلوچستان نیشنل موومنٹ سے بدل کر بلوچ نیشنل موومنٹ رکھ دیا۔ مارچ 2005 میں بلوچوں کے بزرگ رہنماؤں میں سے نواب محمد اکبر خان بگٹی نے پاکستانی پارلیمانی سیاست کو ایک سُراب قرار دیتے ہوئے بلوچستان کی آزادی کے سنگل ایجنڈے پر ایک بلوچ سیاسی جماعت تشکیل دینے کی تجویز پیش کیا۔ بلوچ وکلاء نے بھی صادق رئیسانی اور چند دیگر وکلاء کی قیادت میں بلوچ بار ایسوسی ایشن کے نام سے اپنی ایک الگ بار ایسوسی ایشن تشکیل دی۔ انجمن اتحاد مری نے بھی اپنا نام بدل کر بلوچ وائس رکھا۔ مرحوم واجہ یوسف نسکندی،واجہ واحد بلوچ، واجہ وہاب بلوچ اور چند دیگر انٹلیکچوئلز کی کوششوں سے کراچی میں بھی بلوچوں نے اپنی ایک اتحاد تشکیل دے کر سرگرم ہوگئے۔ تحریک کے جمہوری محاذ پر سب الگ الگ سرگرم تھے مگر سب میں اتحاد اور یکجہتی کی جانب قدم بڑھانے کی زبردست خواہش تھی۔
بلوچ تحریک کی جمہوری محاذ کو متحد اور فعال دیکھنا قابض ریاست پاکستان کیلئے قطعاً قابل قبول نہ تھا، اسلئے ریاست نے ان کوششوں کو سبوتاژ کرنے اور شروع ہی میں کچلنے کیلئے سب سے پہلے نواب محمد اکبر خان بگٹی کو اگست 2006 میں شہید کردیا۔ نواب صاحب کی شہادت کے بعد بی این ایم کے صدر واجہ غلام محمد بلوچ اس قومی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے فعال رہا۔ ریاست نے واجہ غلام محمد بلوچ کو دسمبر 2006 میں کراچی سے گرفتار کرکے 9 مہینوں تک فوجی خفیہ ازیت خانوں میں جبری لاپتہ رکھا۔ 2008 میں پاکستان کے وفاقی وزیر رحمان ملک نے بلوچ تحریک کے خلاف ”ڈنڈا چلانے“ کا اعلان کر دیا جس کے بعد پاکستانی فوج، فرنٹیئر کور، انٹیلیجنس ایجنسیوں نے بلوچ سیاسی رہنماؤں، سیاسی کارکنوں، صھافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور محب وطن اہل خِرد کی جبری گمشدگیوں اور ہدف ننا کر قتل کرنے کی نسل کش کاروائیوں میں شدت لائی۔ فوج اور خفیہ افاروں نے جبری لاپتہ بلوچوں کو زیر حراست ماورائے عدالت قتل کرنا اور تشدد سے مسخ ان کی لاشیں پھینکنا شروع کیا جسے ” مارو اور پھینک دو“ پالیسی کا نام دیا گیا۔ ریاست کی اس بلوچ نسل کش پالیسی نے انسانی حقوق کی تنظیم ”وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز “ کو جنم دیا۔
نواب اکبر خان کی شہادت کے بعد اس کے سیاسی جانشین اور پوتے میر براہمدغ خان بگٹی نے جمہوری وطن پارٹی کے اپنے دھڑے کا نام بلوچ ریپبلکن پارٹی رکھ کر بلوچستان کی آزادی کے ایجنڈے پر سیاست جاری رکھا۔ اپنی رہائی کے بعد واجہ غلام محمد نے آزادی پسند بلوچ سیاسی جماعتوں، تنظیموں، انجمنوں اور بی ایس او آزاد کو بلوچ نیشنل فرنٹ کے پلیٹ فارم پر متحد کرکے تحریک کے جمہوری محاذ کو فعال اور عوام کو تحریک آزادی میں متحرک کرنے کیلئے قائدانہ کردار ادا کرنے لگا تو ریاستی اداروں نے واجہ غلام محمد بلوچ، لالہ منیر بلوچ، رسول بخش مینگل سمیت بی این ایم کی مرکزی کابینہ اور مرکزی کمیٹی کے کئی ارکان کو قتل کیا اور بی این ایم کے رہنماؤں کی قتل کا یہ خونی پالیسی آج بھی جاری ہے ڈاکٹر منان بلوچ، بانک کریمہ بلوچ سمیت درجنوں رہنما اور سینکڑوں کارکن اس خونی پالیسی کا شکار بنے ہیں۔ ریاستی اداروں نے بی آر پی، بی ایس او آزاد سمیت جمہوری محاذ کے تمام اجزاء کو نشانہ بناتی رہیں۔ بی آر پی کے مرکزی رہنماؤں جلیل ریکی، ثناء سنگت اور شیر محمد بلوچ سمیت اس کے کئی عہدیداروں کو شہید کیا، بی ایس او آزاد کے سیکریٹری جنرل رضاء جہانگیر بلوچ، کمبر چاکر بلوچ سمیت سینکڑوں رہنماؤں کو شہید کیا اور چیئر مین زاہد بلوچ، وائس چیئرمین ذاکر مجید بلوچ، انفارمیشن سیکریٹری شبیر بلوچ سمیت سینکڑوں رہنما اور کارکن آج بھی برسوں بعد ریاستی ازیت خانوں میں لاپتہ ہیں۔ اس ریاستی دہشتگردی کے باعث بلوچ نیشنل فرنٹ کے تمام اجزاء آہستہ آہستہ مقبوضہ بلوچستان میں تحریک کے جمہوری محاذ پر اپنی سرگرمیوں کو محدود کرنے کی پالیسی اختیار کرتے گئے۔
جمہوری محاذ پر 2017 سے 2021 تک صرف انسانی حقوق کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز ہی کُھلی سرگرمیاں کرتی رہی جو گزشتہ تین دہائیوں سے ریاستی اداروں کے ہاتھوں جبری لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کیلئے مسلسل سرگرم ہے اور دوسری احتجاجی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ایک علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ چلارہی ہے۔ ماما قدیر بلوچ، بی بی گل بلوچ، سمی دین بلوچ، فرزانہ مجید بلوچ اور علی حیدر بلوچ (جو اس وقت ایک کمسن بچہ تھا) سمیت دیگر لاپتہ بلوچوں کے اہلخانہ پر مشتمل وی بی ایم پی کے ایک احتجاجی قافلہ نے کوئٹہ سے بہ راستہ کراچی، اسلام آباد تک پیدل لانگ مارچ بھی کیا۔
وی بی ایم پی کے خلاف قابض ریاست وہی جابرانہ ہتھکنڈے استعمال کرتی رہی جو اس وقت بی وائی سی کے خلاف استعمال کر رہی ہے ۔ ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کی طرح ماما قدیر بلوچ کو بھی بھارتی ایجنٹ قرار دے کر اس کے خلاف میڈیا میں پروپیگنڈہ مہم چلاتے رہے۔ اسے دھمکیاں دی جاتی رہی ہیں، وی بی ایم پی کے احتجاجی کیمپ کو ریاستی ادارے کئی بار جلا چکے ہیں۔ اس کے احتجاجی ریلیوں پر لاٹھی چارج کرکے شرکاء اور رہنماؤں کو گرفتار کرتے رہے ہیں۔
بی وائی سی کا ظہور 2022 میں سانحہ ڈنوک، کیچ کے خلاف عوامی رد عمل میں ہوا۔ اس سانحہ میں بلوچ تحریک آزادی کے خلاف ریاستی سرپرستی میں سرگرم ایک مسلح جتھے کے کارندے آدھی رات کو ڈکیتی کی غرض سے تربت کے مضافات میں واقع ڈنوک میں ایک گھر کے اندر داخل ہوئے تھے، جاگنے پر خاتون خانہ محترمہ ملک ناز نے ایک ڈاکو کو دبوچ لیا تھا جسے چُھڑانے کیلئے اس کے ساتھی ڈاکو نے گولیاں چلائے تھے جس کے نتیجے میں بی بی ملک ناز اور اس کی چار سالہ بچی برمش بلوچ گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے مگر ملک ناز نے مجرم کو بھاگنے نہیں دی تھی۔ بعد میں بانُک ملک ناز زخموں کی تاب نہ لاکر شہید ہوگئی۔ تاہم ریاستی سرپرستی میں قائم ڈیتھ اسکواڈز کے ہاتھوں ڈکیتی اور ملک ناز کی شہادت کے خلاف اٹھنے والی یہ تحریک جلد ہی ڈیتھ اسکوواڈز، جبری گمشدگیوں اور جعلی مقابلوں میں قتل کی کاروائیوں کے خلاف ایک بڑی عوامی تحریک میں بدل گئی۔ اس عوامی ردعمل نے بلوچستان میں ہر جگہ بی وائی سی کے نام سے علاقائی کمیٹیز کو جنم دیا جن کی کوئی مرکزی تنظیمی ڈھانچہ اور قیادت نہ تھا۔ پھر 2023 میں سی ٹی ڈی کے زیر حراست چار بلوچ نوجوانوں کو جعلی مقابلوں میں قتل کیا گیا جن میں بالاچ بلوچ نام کا ایک نوجوان بھی تھا جسے تربت پولیس جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش بھی کرچکا تھا۔
جعلی پولیس مقابلے میں بالاچ بلوچ کے قتل نے ایک بار پھر ایک بڑے عوامی رد عمل کو جنم دیا۔ تربت میں فدا شہید چوک پر ہزاروں لوگوں نے جعلی مقابلے میں بالاچ کی قتل کے خلاف دھرنا دیا۔ ریاست اور اس کے دلال تربت کے میئر نے بالاچ بلوچ کی فیملی کو چار کروڑ روپے خون بہا دینے کی لالچ دے کر معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کی، بالاچ کی فیملی کو دھمکیاں بھی دی گئیں، دھرنے میں متحرک سماجی کارکنوں گلزار دوست وغیرہ کے خلاف مقدمات درج کئے گئے۔ سمی دین اور چند دیگر خواتین رہنماؤں کو غیر مقامی کہہ کر ان پر علاقہ کا امن امان خراب کرنے کا الزام لگا کر ڈرانے کی کوشش کی گئی مگر نہ تو بالاچ کا خاندان کسی لاچ اور دباؤ کے آگے جھکا اور نہ احتجاجی تحریک کے منتظمین کسی دباؤ میں آئے۔ لاش کے ساتھ دو/تین دن دھرنے کے بعد شہید کی لاش کو ہزاروں مرد اور خواتین نے مقامی قبرستان تک جلوس کی شکل میں لے جاکر دفنائے اور واپس جلوس کی شکل میں آکر احتجاجی دھرنا جاری رکھا۔ ایک ہفتہ سے زائد عرصے تک دھرنا جاری رکھنے کے بعد ہزاروں افراد بلوچوں کے ماورائے عدالت قتل کی ریاستی پالیسی کے خلاف سمی دین بلوچ، گلزار دوست اور دیگر رہنماؤں کی قیادت میں ایک بڑے احتجانی قافلے کی صورت میں تربت سے کوئٹہ روانہ ہوئے۔ قابض ریاست نے احتجاج کو ناکام بنانے کیلئے قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کیں مگر یہ قافلہ آگے بڑھتا رہا۔ راستے میں پڑنے والے ہر گاؤں، قریہ اور شہر کے لوگ قافلے کا استقبال کرتے رہے اور قافلے میں شامل افراد کی تعداد بڑھتی رہی۔
جب پولیس قافلے کو روکنے میں ناکام ہوئی تو خفیہ اداروں نے ریاستی سرپرستی میں ڈیتھ اسکواڈز کے اپنے غنڈوں کے ذریعے خضدار اور سوراب میں قافلے کو ڈرانے اور روکنے کی کوشش کی مگر قافلہ اپنے منزل کی طرف بڑھتا رہا۔ قلات، مستونگ، لک پاس اور ہزار گنجی میں بھی احتجاجی قافلہ کو روکنے کی ریاستی کوششیں ناکام ہوئیں اور یہ قافلہ سریاب پہچ کر ایک بڑے جلسے میں تبدیل ہوگیا۔ سریاب، کوئٹہ میں ایک ہفتہ کے قریب دھرنے کے بعد احتجاجی قافلہ لورالائی، بارکھان، کوہلو، سے ہوتا ہوا براستہ کوہ سلیمان ڈیرہ غازی خان پہنچ گیا۔ راستے میں ہر جگہ بلوچ عوام قافلے کا بے مثال استقبال کرتے رہے۔ ایک مرتبہ پھر ریاست نے قافلے کو ڈیرہ غازی خان میں روکا، بارکھان اور ڈیرہ غازی خان میں بی وائی سی کے مقامی کمیٹیوں کے رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کرکے ان کی گرفتاریاں شروع کی گئیں۔ قافلہ کے نئے شرکاء کو ٹرانسپورٹ کمپنیوں سے سہولت حاصل کرنے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئں مگر اس احتجاجی قافلہ کے قائدین اور منتظمین کے عزم کو توڑنے میں ریاست کو ایک بار پھر نامامی ہوئی اور قافلہ ڈیرہ غازی خان سے تونسہ شریف پہنچا جہاں بلوچوں نے ان کا فقید المثال استقبال کیا۔ اگلے دن قافلہ براستہ ڈیرہ اسماعیل، اسلام آباد کیلئے روانہ ہوا جہاں سالوں سے جبری لاپتہ آصف بلوچ کی بہن، رشید بلوچ کے کزن سائرہ بلوچ اور راشد حسین بلوچ کی بھتیجی ماہزیب بلوچ کی قیادت میں جبری لاپتہ بلوچوں کے خاندانوں کی خواتین کئی ہفتوں سےاسلام آباد نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ لگائے بیٹھی ہوئی تھیں۔
بی وائی سی کا قافلہ جیسے ہی پہچا تو اسلام آباد پولیس نے پہلے ہی سے سینکڑوں کنٹینرز ان کے راستے پر کھڑی کرکے راستہ بند کیا ہوا تھا۔ پولیس انھیں اسلام آباد میں داخل نہیں ہونے دے رہی تھی اور کوشش کر رہی تھیں کہ انھیں وہیں واپس بھیج دے مگر قافلہ اپنے عزم پر قائم رہا تو دسمبر کی اس شدید سرد رات میں اسلام آباد پولیس نے قافلہ کے شرکاء پر لاٹھی چارج کیا، خواتین اور بچوں پر پانی کی توپیں برسائیں، اسلام آباد پریس کلب کے سامنے لگے کیمپ کے شرکاء پر بھی پولیس یہی مظالم ڈھائے، انھیں قائدین سمیت گرفتار کرکے مختلف پولیس تھانوں میں لاپتہ رکھا گیا جس کے خلاف بلوچستان سمیت ہر جگہ بلوچ قوم نے شدید عوامی ردعمل دکھایا۔ قافلہ کے شرکاء کو زبردستی اسلام آباد بدر کرنے اور بسوں میں بلوچستان واپس بھیجنے کی کوشش کی گئی مگر وہ ڈٹے رہے۔ لکھ آفرین ہو بس مالکان پر کہ انہوں نے بلوچ خواتین اور بچوں کو زبردستی بلوچستان بھیجنے کی پولیس کی کوششوں میں ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ آخر کار ریاست کو جھکنا پڑا، بلوچ یکجہتی کمیٹی اسلام آباد پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ لگانے میں کامیاب ہوگئی۔
پولیس اور خفیہ اداروں نے انھیں رات کے وقت حراساں کرنا شروع کیا، ان کا ساؤنڈ سسٹم چُرایا گیا، پریس کلب انتظامیہ کے ذریعے انھیں احتجاجی کیمپ اٹھانے کا نوٹس دیاگیا، ایف آئی آر درج کی گئی، ریاستی سرپرستی میں سرگرم ڈیتھ اسکواڈ سراوان ، مستونگ کے سربراہ اور کھٹ پتلی نگران وزیر جمال رئیسانی کی قیادت میں ڈیتھ اسکواڈ کارندوں کو لاکر بی وائی سی کیمپ کے سامنے ان کا کیمپ لگا کر انھیں ڈرانے کی کوشش کی گئی، ان کے خلاف میڈیا پر مہم شروع کیاگیا۔ تاہم اسلام آباد پریس کلب کے قرب و جوار کی رہائشی آبادی سے ایک نمایاں تعداد نے بی وائی سی کی احتجاج، خواتین اور بچوں کے ساتھ ہمدردی اور انسانیت دکھایا۔ سفارتی حلقوں سے ایک قابل ذکر تعداد جبری لاپتہ بلوچوں کے انسانی مسئلے کی طرف متوجہ ہوئی۔ بی وائی سی کی سرکردہ قیادت کو عالمی سطح پر سراہا جانے لگا۔
گوادر میں بلوچ راجی مچی کے نام سے بی وائی سی کی اجتماع کے وقت ریاست مزید پُرتشدد ہوئی، قافلوں کو گوادر جانے سے روکنے کیلئے پورے بلوچستان میں کھٹ پتلی حکومت نے شاہراھیں بند کیں، طاقت کا استعمال کیا، کئی بے گناہ بلوچ شہید ہوئے۔ پھر دالبندین میں بی وائی سی کی اجتماع کے موقع پر بھی ریاست اسی طرح بوکھلا گیا۔ بی وائی سی بلوچ عوام میں مقبول اور عالمی سطح پر نمایاں ہونے لگا اور اس کی سرگرمیوں نے قابض ریاست کے ہاتھوں دہائیوں سے جاری بلوچ نسل کشی کی طرف عالمی توجہ کو مہمیز دی۔ قابض ریاست کا گھناؤنا چہرہ سب کو نظر آنے لگا۔ ردعمل میں ریاست نے فوجی ترجمان کی قیادت میں بی وائی سی کی قیادت کے خلاف جھوٹے الزامات کا مہم تیز کردیا۔
جعفر ایکسپریس ٹرین کو بولان میں یرغمال بنائے جانے کے بعد فوج نے درجنوں لاشیں کوئٹہ کے سرکاری اسپتال لایا اور دعویٰ کیا کہ وہ لاشیں ٹرین یرغمال بنانے والے بلوچ سرمچاروں کی ہیں۔ ان میں سے کئی ایک کو بغیر شناخت کئے دفنانے کی خبر جب باہر آئی تو اس خبر سے جبری لاپتہ بلوچوں کے لواحقین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ لواحقین کو خدشہ تھا کہ کہیں اسپتال میں لائے گئے لاشوں میں فوج اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں لاپتہ بلوچوں میں سے بعض کی لاشیں شامل تو نہیں۔ کیونکہ ماضی میں ایسے مواقع پر جبری لاپتہ بلوچوں کو حراست میں قتل کرکے ان کی لاشوں کو سرمچاروں کی لاشوں میں شامل کرنے کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں۔
فوج اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں جبری لاپتہ بلوچوں کے لواحقین لاشوں کی شناخت کیلئے اسپتال کے باہر بڑی تعداد میں جمع ہوگئے مگر انھیں لاشیں دیکھنے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی تو وہ احتجاج کرنے لگے۔ جیسے ہی بی وائی سی کی قیادت ان بے بس لواحقین کی آواز میں آواز ملانے اسپتال پہنچنے لگی تو ریاستی ادارے ایسے حرکت میں آگئے جیسے انھیں اسی لمحے کا انتظار تھا۔ ریاست نے لاشوں کی شناخت کیلئے اسپتال کے باہر لواحقین کے اس احتجاج کو اسپتال پر حملہ قرار دے کر بی وائی سی کی قیادت کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا جس کے نتیجے میں بی وائی سی کی ساری قیادت کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مختلف پولیس تھانوں میں جھوٹے مقدمات درج کئے گئے۔ جھوٹے مقدمات میں انھیں ضمانت پر رہائی ملنے کے ڈر سے ان کے خلاف تھری ایم پی او جیسے نوآبادیاتی دور کے کالے قانون کے تحت انھیں حراست میں رکھنے کے احکامات بھی جاری کئے گئے جن میں بار بار توسیع کی جارہی ہے۔
بی وائی سی پر پابندی لگانے اور اس کی قیادت کو جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کیلئے ڈی جی آئی ایس پی آر کی قیادت میں ان کی کردار کشی کرنے اور بلاثبوت ان پر سنگین نوعیت کے الزامات لگانے کا مہم زور و شور سے جاری ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بی وائی سی کی آواز دبانے سے فوج اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں جبری لاپتہ بلوچوں کے خاندانوں کی آواز سمیت جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالتوتل اور بلوچ نسل کشی کے خلاف بلوچستان میں انسانی حقوق کی تحریک دب جائے گی؟ بلوچ قوم قابض ریادت کے ہاتھوں اپنی نسل کشی کا خاموش تماشائی بن جائے گی؟ میرے خیال میں ایسا سوچنا قابض ریاستی مقتدرہ کی ذہنی دیوالیہ پن اور خام خیالی سے زیادہ اور کچھ نہیں ۔ جہاں آگ لگی ہوتی ہے وہاں سے دھوئیں کا اٹھنا فطری بات ہے۔ جب تک بلوچستان پر پاکستان کا جبری قبضہ اور اس قبضہ کے خلاف بلوچ قومی آزادی کی تحریک موجود ہے، جب تک بلوچ تحریک آزادی کے خلاف ریاست کی بلوچ نسل کش پالیسی اور فوجی کاروائیاں جاری ہیں، جب تک انسانی حقوق کی پامالی اور ریاست کے جنگی جرائم کی پالیسی جاری ہے تو اس نسل کشی اور ریاستی جرائم کے خلاف انسانی حقوق کی تحریک جاری رہے گی، قبضہ گیریت اور ظلم و جبر کے خلاف بلوچوں کی آواز بلند ہوتی رہے گی۔ بی وائی سی دب بھی گئی تو اس ریاستی جبر کے خلاف انسانی حقوق کی تحریک ختم نہیں ہوگی، بالکل اسی طرح جس طرح نواب محمد اکبر خان بگٹی اور غلام محمد بلوچ، ڈاکٹر منان بلوچ کی شہادتوں سے تحریک آزادی کا جمہوری محاذ ختم نہیں ہوا، جس طرح میر بالاچ خان مری، ڈاکٹر خالد بلوچ، اور اسلم بلوچ کی شہادتوں سے تحریک آزادی کا مسلح محاذ ختم نہیں ہوا۔