عراق: سیکورٹی خدشات کے باعث امریکی سفارت خانہ کو خالی کروانے کا فیصلہ

ایڈمن
ایڈمن
4 Min Read

امریکی حکومتی ذرائع نے بتایا ہے کہ عراق کے دارالحکومت بغداد میں امریکی سفارت خانے کے ’غیر ضروری‘ عملے اور ان کے اہلِ خانہ کا جلد وہاں سے انخلا شروع کیا جائے گا۔

حکام نے یہ تو نہیں بتایا کہ ان کے انخلا کے فیصلے کے پیچھے کیا وجہ ہے لیکن حالیہ دنوں میں ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق مذاکرات میں بظاہر کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اہلکار نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بدھ کو بتایا کہ ’ہم مسلسل اپنے مختلف سفارت خانوں میں موجود اپنے اہلکاروں کی موجودگی کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ ہمارے تازہ ترین تجزیے کے بعد ہم نے عراق میں اپنے مشن کی تعداد میں کمی کا فیصلہ کیا ہے۔‘

یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب امریکہ اور ایران کے درمیان مذاکرات کئی ہفتے جاری رہے اور امریکی صدر ٹرمپ کو یہ امید تھی کہ وہ تہران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے معاہدہ کر پائیں گے۔

ٹرمپ نے بدھ کو اپنے بیان میں کہا کہ وہ اس بارے میں اب کم پراعتماد ہیں کہ ایران یورینیم کی افزودگی روکے گا۔

رواں ہفتے انھوں نے اسرائیلی وزیرِ اعظم کو ایک 40 منٹ طویل کال کی جسے ’تناؤ سے بھرپور‘ قرار دیا گیا۔ بنیامن نتن یاہو کا ایک عرصے سے مؤقف یہ رہا ہے کہ اس مسئلہ کا حل سفارتی نہیں بلکہ فوجی ہے۔

جب ٹرمپ سے مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ممالک سے عملے کے انخلا کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’انھیں اس لیے نکالا جا رہا ہے کیونکہ یہ ایک خطرناک جگہ بن سکتی ہے، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’لیکن انھیں نکالا جا رہا ہے اور ہم نے انھیں (وہاں سے) نکالنے کا نوٹس دے دیا ہے اور ہم اب دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔‘

اب جبکہ جوہری مذاکرات ایک انتہائی اہم موڑ پر ہیں یہ واضح نہیں ہے کہ امریکہ کی جانب سے کیا گیا اعلان واقعی کسی خطرے کے خدشے کے باعث ہے یا یہ صرف ان کی جانب سے ایران کو پیغام دیا جا رہا ہے۔

تاہم ایرانی وزیرِ دفاع عزیز ناصرزادے کا کہنا تھا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے اور ٹرمپ نے ایران کے خلاف فوجی حملے کرنے کا حکم دیا تو ان کا ملک خطے میں امریکی اڈوں پر جوابی حملے کرے گا۔‘

خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کے سیکریٹری دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے کویت اور بحرین سمیت مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک سے امریکی فوجی اہلکاروں کے خاندانوں کی انخلا کی اجازت دی تھی۔

امریکی کانگریس کے ایک پینل کے سامنے پینٹاگون کی جانب سے کہا گیا کہ ان کا ماننا ہے کہ اس بارے میں ’متعدد اشارے‘ موجود ہیں کہ ایران ’کچھ ایسا بنانے کی جانب بڑھ رہا ہے جو ایک جوہری ہتھیار جیسا ہو سکتا ہے۔‘

ایران یہ کہتا آیا ہے کہ اس کا افزودگی کا پروگرام سویلین توانائی کی پیداوار کے لیے ہے اور وہ ایٹمی بم بنانے کی کوشش نہیں کر رہا۔

بدھ کو برطانیہ کی میریٹائم ٹریڈ آپریشنز نامی تنظیم جو رائل نیوی کا حصہ ہے نے ایک انتباہ جاری کیا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ میں فوجی تناؤ میں اضافے کے باعث جہاز رانی متاثر ہو سکتی ہے۔

جب امریکی عملے کے انخلا کی خبر نشر ہوئی تو عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں چار فیصد اضافہ ہوا۔

امریکی محکمہ دفاع کے مطابق اس وقت عراق میں امریکہ کے 2500 فوجی موجود ہیں۔

Share This Article