انڈین پارلیمنٹ کے رکن اور سفارتی وفد کے سربراہ ششی تھرور نے کہا ہے کہ انڈین حکومت کو اب حالیہ فوجی تصادم کے بعد پاکستان کے ساتھ اس وقت تک بات چیت نہیں کرنی چاہیے جب تک کہ ملک میں دہشت گردی کے تربیتی کیمپوں کو بند کرنے کے لیے کارروائی نہیں کی جاتی ہے۔ انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ امریکہ کو ثالث کے طور پر شامل نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس سے برابری کا تاثر ملتا ہے۔
ششی تھرور جو گذشتہ ماہ کے تنازع پر انڈیا کا نقطہ نظر پیش کرنے کے لیے دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں بھیجے جانے والے وفد کی سربراہی کر رہے ہیں نے کہا ہے کہ کسی بھی بیرونی ثالثی کی بات ناقابل قبول ہے کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ دونوں فریق برابر کے ہیں۔
جمعے کو واشنگٹن میں بلومبرگ کو ایک انٹرویو میں ششی تھرور نے بتایا کہ ’دہشت گردوں اور ان کے متاثرین کے درمیان کوئی برابری نہیں ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’یہ پاکستانیوں اور ہمارے درمیان ایک مسئلہ ہے۔‘
دونوں ممالک کے درمیان چار روز کے تنازعے کے خاتمے کے لیے جنگ بندی کا اعلان سب سے پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ ماہ اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ پر کیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے فوجی جھگڑے کو ختم کرنے کا کریڈٹ لیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ امریکہ نے تجارت کو ’بارگینگ چِپ‘ کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
انڈیا نے اس بات کی تردید کی ہے کہ جنگ بندی امریکی مداخلت کا نتیجہ تھی۔ پاکستان نے تنازع میں امریکہ کی شمولیت کا خیرمقدم کیا ہے اور تیسرے فریق کی ثالثی کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
ششی تھرور کے گروپ نے امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس، کئی قانون سازوں، اور محکمہ خارجہ کے اہلکاروں کے ساتھ ساتھ امریکی دارالحکومت میں تھنک ٹینک کے نمائندوں سے بھی ملاقات کی۔
انھوں نے کہا کہ انھیں ’مکمل یکجہتی‘ کے پیغامات موصول ہوئے ہیں۔
پاکستان نے اپنے موقف کا دفاع کرنے کے لیے الگ سے وفود بھیجے ہیں۔ 10 مئی کو جنگ بندی پر اتفاق کرنے سے پہلے، دونوں ممالک کے شدید ڈرون اور فضائی حملوں کے بعد، دونوں ممالک کی جانب سے مکمل جنگ کے قریب آنے کے چند ہفتوں بعد ہی سفارتی سطح کی مہم دیکھنے کو ملی ہے۔
انڈیا اور پاکستان میں حالیہ کشیدگی کا آغاز 22 اپریل سے ہوتا ہے جب نئی دہلی کے زیرانتظام انڈیا میں پہلگام کے سیاحتی مقام بائیسیرن میں شدت پسندی کے ایک واقعے میں 26 سیاحوں کی ہلاکت ہوئی۔ انڈیا نے اس واقعے کا الزام پاکستان پر عائد کیا جبکہ پاکستان نے نہ صرف اس کی تردید کی بلکہ اس واقعے کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا۔
ششی تھرور نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ’ہم پاکستانیوں سے اس وقت تک بات نہیں کریں گے جب تک وہ دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے کو ختم کرنے کے لیے قابل اعتبار اقدامات نہیں دکھاتے۔‘
انھوں نے صحافی کو بتایا کہ ’کیا آپ کسی ایسے شخص سے بات کریں گے جو آپ کے سر پر بندوق رکھ رہا ہو؟‘
ششی تھرور نے کہا کہ جو سات اکتوبر کو ہوا ’یہ انڈیا بمقابلہ دہشت گردی ہے۔ یہی ہمارا پیغام تھا۔‘