بلوچ تحریک آزادی پر بھارتی پروکسی ہونے کے پاکستانی الزام کا مقصد کیا ہے، اور اس کا مخاطب علیہہ کون ہے؟ | رحیم بلوچ ایڈووکیٹ

ایڈمن
ایڈمن
22 Min Read

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ترجمان نے 19 مئی 2025 ،بروز سوموار ایک پریس کانفرنس میں مقبوضہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ہفتہ اور اتوار کے دن مختلف کاروائیوں میں بی ایل ایف اور ٹی ٹی پی کے 12 جنگجوؤں کو قتل کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے بلوچستان لبریشن فرنٹ پر بھارتی پروکسی ہونے کا الزام لگایا۔ فوج کے ترجمان نے بلوچستان میں ہفتہ اور اتوار کے اپنے الگ الگ کاروائیوں میں آواران میں یونس ولد رسول بخش نامی شخص کو ایک زبردست مقابلہ میں ہلاک کرنے اور تربت، کیچ میں صبراللّہ بلوچ اور امجد بشام بلوچ کو قتل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ان کاروائیوں کو سرانجام دینے پر فوج کو زبردست سراہا۔ ترجمان نے مقتولین کو نہ صرف بی ایل ایف کا سرمچار بتایا بلکہ بی ایل ایف اور ان پر بھارتی ایجنٹ ہونے کا الزام بھی لگایا۔

بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان میجر گہرام بلوچ نے اسی روز اپنے آفیشل چینل آشوب پر بیان جاری کیا جس میں بی ایل ایف، شہید امجد بشام اور شہید صبر اللّہ پر بھارتی پروکسی اور ایجنٹ ہونے کے الزام کو سختی کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے اسے جھوٹ اور گمراہ کن قرار دیا۔ میجر گہرام نے یہ بھی انکشاف کیا کہ آواران میں قتل ہونے والا یونس ولد رسول بخش محکمہ لیویز، بلوچستان کا ایک حاضر سروس اہلکار تھا جسے اس کے گھر واقع آواران، مالار بنگل بازار سے پاکستانی فوج نے اس کے اہلخانہ کے سامنے زبردستی اٹھایا، مزاحمت اور احتجاج کرنے پر اس کے اہلخانہ کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور لیویز اہلکار کو اس کے گھر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر دمب کے مقام پر قتل کرکے اس کی لاش پھینک دی۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فوجی ترجمان نے لیویز فورس کے حاضر سروس اہلکار یونس ولد رسول بخش کو بلوچستان لبریشن فرنٹ کا سرمچار اور بھارتی ایجنٹ ظاہر کرنے اور اسے ایک زبردست مقابلے میں مارنے کا دعویٰٰ کیوں کیا؟ اس کیوں کا سادہ سا جواب ہے، بلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف جنگ میں مقامی دلال اور ایجنٹ پاکستانی فوج کا ایک موثر مگر نا قابل اعتبار ہتھیار ہیں۔ قابض ریاست اپنے ان مقامی ایجنٹس کو استعمال کرنے اور ان سے اپنا کام نکالنے کے بعد کسی نہ کسی طریقہ سے انھیں استعمال شدہ ٹشو پیپر کی طرح ٹھکانے لگا دیتی ہے کیونکہ ریاستی اداروں کو اپنے مقانی دلالوں کی وفاداری پر کبھی بھروسہ نہیں ہوتا۔ ریاستی ادارے ان کی وفادری کو ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور کام نکلنے کے بعد ریاست ان کو ایک بوجھ اور خطرہ سمجھتی ہے۔ بی ایل ایف کے بیان اور دیگر ذرائع کے مطابق یونس ولد رسول بخش محض ایک لیویز اہلکار نہیں بلکہ فوج کا ایک فعال ایجنٹ بھی تھا۔ میجر گہرام بلوچ کے بقول مقتول لیویز اہلکار یونس بی ایل ایف کے ایک سرمچار دوستین میروانی ولد ریاض میروانی سکنہ مالار کی شہادت کے جرم میں بی ایل ایف کو مطلوب بھی تھا۔ یونس کا قتل در اصل فوج اور یونس کے درمیان کسی اندرونی چپقلش کا شاخسانہ ہے۔ قابض فوج نے اپنے ایجنٹ یونس کو بی ایل ایف کا سرمچار بتا کر ایک تیر سے چاراہداف حاصل کرنے کی کوشش کی ہے: ایک تو اس نے اپنے لئے بوجھ اور خطرہ بنے اپنے ایجنٹ کو راستہ سے ہٹایا، دوسرا یہ کہ ماورائے عدالت قتل کا اپنا جرم چُھپانے کی کوشش کی ہے، تیسرا یہ کہ اپنے منحرف ایجنٹ کے اس قتل کو بی ایل ایف کے خلاف اپنی کامیابیوں کی جھوٹی کہانی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کیلئے استعمال کیا، اور چوتھی بات یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ حالیہ تناؤ کے تناظر میں اس کے خلاف بلوچستان میں مداخلت کے الزام دہرا کر کشمیر میں اپنے پروکسی جنگ سے توجہ ہٹانے یا کم از کم حساب برابر کرنے کی کوشش کی۔

آئی ایس پی آر کے ترجمان نے اپنے مذکورہ بیان میں، کیچ کے مرکزی شہر تربت سٹی میں شہید ہونے والے سرمچاروں امجد بشام بلوچ اور صبراللّہ بلوچ کو بھارتی ایجنٹ کہہ کر بلوچ تحریک آزادی کے بارے میں اپنے جھوٹے اور گمراہ کن بیانیہ کو زیادہ زور و شور سے دہرایا۔ میجر گہرام بلوچ نے اپنے بیان میں امجد بشام اور صبر اللّہ کو بی ایل ایف کے سرمچار تسلیم کیا اور ان میں سے امجد بلوچ کا عہدہ کیپٹن اور صبر اللّہ بلوچ کا عہدہ لیفٹیننٹ ظاہر کیا۔ میجر گہرام نے اپنے بیان میں انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ کیپٹن امجد بشام بلوچ اور ساتھی شہید سرمچار صبر اللّہ کی بہادری، فوجی صلاحیت و مہارت کا اندازہ ان کی میتوں کے ساتھ قابض پاکستانی فوج کے برتاؤ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے قابض فوج کو وہ زخم دیئے ہیں کہ بدلے کے جذبات سے مغلوب ہوکر دشمن نے عالمی جنگی قوانین، انسانی، اخلاقی اور اسلامی اصولوں کو روندتے ہوئے ان کے میتوں کی بے حرمتی کیا ہے۔

اب سوال، بلکہ اہم ترین سوال یہ ہے کہ آئی ایس پی آر کے ترجمان نے ایک چھوٹی سی کامیابی کو بنیاد بنا کر بلوچ قومی تحریک آزادی، بالخصوص بلوچستان لبریشن فرنٹ کے خلاف جھوٹے اور گمراہ کُن بہتان کی بوجھاڑ کیوں کردی؟ فوجی ترجمان نے شد و مد کے ساتھ بی ایل ایف کو بھارتی پروکسی اور شہید امجد بشام و شہید صبر اللّہ بلوچ کو بھارتی ایجنٹ کیوں کہتا رہا؟ یہاں تک کہ اپنے ہی سرکاری ملازم اور ایجنٹ یونس ولد رسول بخش کو خود ماورائے عدالت قتل کرنے کے بعد اسے بھی بی ایل ایف کا جنگجو اور بھارتی ایجنٹ آخر کیوں کہا۔؟

اس کیوں کا بھی انتہائی سادہ سا جواب ہے :
پہلی بات یہ ہے کہ پاکستان شروع ہی سے بلوچستان پر اپنے جبری قبضہ کے خلاف بلوچ قومی تحریک آزادی کو پاکستان کے خلاف بیرونی قوتوں کی سازش اور بلوچ قیادت کو ان کا پروکسی و ایجنٹ کہتی رہی ہے۔ وہ بلوچ تحریک آزادی کی بومی (indigenous )، تاریخی اور فطری بنیاد تسلیم کرنے سے ہمیشہ منکر رہی ہے۔ 1990 کی دہائی تک پاکستان بلوچ قومی تحریک آزادی کو عالمی سوشلسٹ تحریک سے نتھی کر کے اسے سوویت یونین/ روس کی گرم پانیوں تک پہچنے کی کوشش اور سازش کہتی رہی اور اس کا یہ بیانیہ کسی حد تک کامیاب بھی رہی۔ بلوچ قومی تحریک آزادی کو روس کی پروکسی بتاکر پاکستان نے سرد جنگ کے دوران امریکہ، نیٹو ممالک اور ان کے اتحادیوں کو بلوچ تحریک آزادی سے ڈراتی رہی ، بلوچ تحریک کے خلاف ان سے اسلحہ، معاشی و مالیاتی امداد، قرضے اور سیاسی و سفارتی حمایت حاصل کرتی رہی ۔

سوویت یونین کے انہدام کے بعد رواں صدی کے آغاز پر جب بلوچ قومی تحریک آزادی عسکری اور جمہوری محاذوں پر ایک بار پھر اپنی سرگرمیوں میں تیزی لانے لگی تو اس بار ابتداء میں پاکستان بلوچ تحریک آزادی کو چند قبائلی سرداروں، بالخصوص مری، بگٹی اور مینگل، کی ترقی مخالف مزاحمت، اور بھارت کی پاکستان مخالف سازش کہہ کر بیانیہ بنانے لگی۔ 11 ستمبر 2001 کو نیویارک، امریکہ میں مشہور زمانہ ٹوئن ٹاورز اور پینٹاگون پر القاعدہ کے حملوں اور ان حملوں کے بعد افغانستان پر امریکہ اور نیٹو کی چڑھائی کے بعد جب امریکہ نے القاعدہ کے خلاف اس مہم کو ”دہشتگردی کے خلاف جنگ“ کا نام دیا تو پاکستان نے بلوچ تحریک آزادی کے خلاف امریکہ اور نیٹو کی براہ راست حمایت حاصل کرنے کے امید پر بلوچ تحریک آزادی کو بھی دہشتگردی قرار دینے لگی ۔ مگر اس کے اس بیانیہ کو عالمی سطح پر کوئی پذیرائی نہیں ملی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اب امریکہ سمیت مغربی ممالک بلوچ قومی تحریک آزادی کو اس کے تاریخی اور دیسی (indigenous ) بنیادوں پر دیکھنے لگی ہیں۔ وہ بلوچ تحریک آزادی کو اپنے مخالف القاعدہ سے جُڑی کوئی خطرہ نہیں سمجھتے۔

جبکہ بلوچستان کے ہمسایہ ممالک، خصوصاً افغانستان، اور ایران بھی پاکستان کے دوغلے پن اور منافقت کی وجہ سے اس پر اعتبار نہیں کرتے۔ ایران مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں عالمی اور اپنے علاقائی حریفوں کے ساتھ دہائیوں سے اُلجھی ہوئی ہے اور ایران میں رضاء شاہ کی حکومت کا تخت الٹنے کے بعد پاکستان نہ صرف ہمیشہ ایران کے مخالف کیمپ میں چلی آرہی ہے بلکہ شیعہ مخالف فرقہ وارانہ نفرت، تعصب، تشدد اور تعدی کی ریاستی سرپرستی بھی کرتی رہی ہے۔ ایران کو خطرہ ہے کہ اگر امریکہ یا ایران کے علاقائی حریفوں کے ساتھ اس کی کوئی بڑی جنگ شروع ہوئی تو پاکستان ڈالر کمانے اور دیگر فوائدحاصل کرنے کیلئے اپنے بری، بحری، فضائی راستے اور دیگر فوجی انفراسٹرکچر اس کے مخالفین کے حوالے کرے گی جس طرح پاکستان ڈالر کمانے کیلئے گزشتہ پانچ دہائیوں سے اپنے زمینی، سمندری، فضائی راستے اور دیگر انفراسٹرکچر افغانستان کے خلاف استعمال کرنے کیلئے کرایہ پر دیتی آرہی ہے۔ اس کے علاوہ ایران کو اپنے اندرونی محاذ پر حزب اختلاف کے علاوہ بلوچ، کرد اور دوسرے اقوام اور سنی اقلیت کے ساتھ بھی مسائل درپیش ہیں اسلئے وہ پاکستان جیسے بے اعتبار ہمسائیہ کیلئے بلوچ تحریک آزادی کے ساتھ دشمنی مول لے کر اپنے خلاف کوئی نیا محاذ گرم نہیں کرنا چاہتی۔ جبکہ افغانوں کو گزشتہ پانچ دہائیوں کے تجربات سے پاکستان کی افغانستان دشمنی، منافقت اور موقعہ پرستی کو قریب سے دیکھنے اور سہنے کا اچھا خاصا تجربہ ہوا ہے اسلئے دونوں ہمسایہ ممالک : افغانستان اور ایران بلوچ تحریک آزادی کے بارے میں محتاط اور غیر مخاصمانہ پالیسی پر کاربند ہیں۔

بلوچ تحریک آزادی کی سیاسی محاذ پر بلوچ نیشنل موومنٹ اور عسکری محاذ پر بلوچستان لبریشن فرنٹ کی فعال اور موثر موجودگی نے تحریک آزادی کو چند سرداروں کی سازش کہنے اور باور کرانے کی بے بنیاد پاکستانی بیانیہ کو پہلے ہی بے وزن، غیر متعلق اور غیر موثر کردیا ہے۔

اب پاکستان کے پاس لے دے کر بلوچ قومی تحریک آزادی کو بھارت کی پروکسی اور سازش کہنے کا بیانیہ ہی رہ گیا ہے۔ پاکستان یہ بھی جانتی ہے کہ عالمی اور علاقائی سیاست و معیشت میں بھارت کی بھاری بھرکم وزن اور کردار کے باعث پاکستان کے اس بیانیہ کو کوئی پذیرائی نہیں ملنے والی ہے۔ جہاں تک بلوچ عوام کی بات ہے تو ان پر اس بیانیہ کا قطعاً کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ بلوچ بہ حیثیت قوم بلوچستان پر پاکستانی جبری قبضہ، نو آبادیاتی حکمرانی، قدرتی وسائل کی لوٹ مار اور نسل کشی کو براہ راست بھگت رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ بلوچ تحریک آزادی، اس تحریک کے اہم ترین بازو بلوچستان لبریشن فرنٹ اور اس کے سرمچار کسی بھی بیرونی ملک کے پروکسی اور ایجنٹ نہیں ہیں بلکہ بلوچستان کی آزادی، بلوچ قومی بقاء، قومی وقار اور شناخت کیلئے سروں کے نذرانے دینے اور لینے والے بے لوث بلوچ ہیں۔

بلوچستان لبریشن فرنٹ کے خلاف فوجی ترجمان کے الزامات اور پروپیگنڈے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بی ایل ایف مکران و آواران سے لے کر کوہلو و بارکھان تک، خاران، رخشان، سراوان، جہلاوان، اور کچھی سے لے کر کراچی تک گزشتہ دو دہائیوں سے قابض فوج پر کاری ضرب لگاتی رہی ہے۔ بی ایل ایف کی عسکری طاقت اور اس کی عوامی حمایت روز بروز بڑھ رہی ہے۔ بلوچستان میں گزشتہ ڈھائی دہائیوں کی شدید تر ریاستی دہشتگردی کے باوجود بلوچستان لبریشن فرنٹ نے مسلح محاذ پر مسلسل پیشرفت، کامیابیوں اور مستقل مزاجی سے دشمن فوج کو شدید دباؤ میں رکھا ہوا ہے۔ اس مستقل دباؤ اور خوف کی کیفیت نے ریاستی فوجی اہلکاروں کو بدترین نفسیاتی مسائل سے دو چار کی ہوئی ہے جس کی وجہ سے روز بہ روز فوجی جوانوں کے حوصلے تیزی سے پست ہو رہی ہیں، پاکستانی فوج اور دوسرے سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کے پاس جنگ لڑنے، اپنی جان دینے اور کسی دوسرے کی جان لینے کیلئے سوائے تنخواہ کے، کوئی اخلاقی اور جذباتی محرک نہ ہونے کی وجہ سے ان میں لڑنے کا کوئی جوش و جذبہ نہیں ہے۔ جنگی محاذ پر ڈیوٹی کی وجہ سے مستقل ذہنی تناؤ، قربانی دینے کیلئے اخلاقی اور جذباتی جواز کی عدم موجودگی کے سبب پاکستانی سکیورٹی اہلکار احساس گناہ اور احساس جرم کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں جو ان میں جنگ کی جانب عدم رغبت اور سرمچاروں کا سامنا کرنے سے پہلو تہی کرنے کے رجحان کو بڑھا رہی ہے۔ اسلئے پاکستانی جرنیل، ان کے دروغ گو ترجمان اور دوسرے دلال بلوچ قومی تحریک آزادی، بالخصوص بلوچستان لبریشن فرنٹ اور سرمچاروں کو اپنے روایتی حریف بھارت کا ایجنٹ بتا کر اپنے فوجیوں کو جنگ کی جانب عدم رغبت، احساس گناہ اور احساس جرم کی دلدل سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس بحث سے با آسانی یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ بلوچ قومی تحریک آزادی، بالخصوص بلوچستان لبریشن فرنٹ کے خلاف ریاست پاکستان کے اس بے بنیاد بیانیہ کا اصل مخاطب علیہہ (audience) در اصل پاکستانی فوجی جوان، اور پاکستانی، بالخصوص پنجابی عوام ہیں کیونکہ پاکستانی فوج کی بھارت کے ساتھ بڑی و چھوٹی چھ جنگیں ہوئی ہیں۔ پاکستانی فوجی بھارت کو اپنا روایتی دشمن سمجھتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ دریاؤں کے پانی پر بھی پنجاب کی دشمنی ہے اور پاکستانی فوج میں اکثریت پنجابیوں کی ہے۔ بھارت پنجاب کے دریاؤں کی پانی روک کر پنجاب کو بدترین سوکھ اور بھوک کے ذریعے جھکا سکتی ہے۔ بلوچ قومی تحریک آزادی و بلوچ قوم کو بشمول سرمچاروں کے بھارت کا پروکسی اور کافر کہہ کر ریاست نہ صرف فوجی جوانوں کو مقبوضہ بلوچستان میں سرمچاروں کے خلاف لڑنے، بلوچ عوام پر ظلم کرنے اور ان کی نسل کشی کرنے پر اکساتی ہے بلکہ ساتھ ہی اقتدار پر اپنے غاصبانہ قبضہ اور پالیسیوں کیلئے پنجابی عوام کی حمایت بھی حاصل کرتی ہے۔ یہ ایک تلخ مگر روشن حقیقت ہے کہ بائیں بازو اور انسانی حقوق کی کارکنوں کے ایک چھوٹے سے حلقہ کو چھوڑ کر پنجابی عوام کی بھاری اکثریت کی طرف سے بلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف ریاست اور فوج کی پالیسیوں اور بیانیہ کو ہمیشہ بلا چوں چرا قبولیت اور حمایت حاصل رہی ہے۔ پنجابی عوام کی جانب سے ریاست اور فوج کے اس طرفداری کی گہری سیاسی، معاشی، اور سماجی بنیاد اور وجوہات ہیں۔ پنجابی رائے عامہ کی اس طرفداری کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بلوچستان کے وسائل کی نو آبادیاتی لوٹ کھسوٹ اور استحصال سے حاصل ہونے والے فوائد، مواقع اور حاصلات سے پنجابی حکمران اشرافیہ کے ساتھ پنجابی عوام بھی بطور فطری بینیفشری مستفید ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ قابض حکمران قوم سے ہونے کا گھمنڈ بھی عام پنجابی کے دل و دماغ میں پنجابیت اور شاؤنزم کو ہوا دیتی ہے جس کے سبب وہ بلوچ قوم کے خلاف پاکستانی ریاست اور فوج کی بلا چوں چرا حمایت کرتے ہیں۔

بھارت کے ساتھ حالیہ فوجی اور سفارتی تناؤ اور جنگ کے باعث پنجاب میں بھارت مخالف جذبات اور غصہ کا فائدہ اٹھا کر فوج اس بیانیہ کے ذریعے پنجاب میں نہ صرف بلوچ قومی تحریک آزادی کی عسکری محاذ کے خلاف اپنے مہم کیلئے حمایت برقرار رکھنا چاہتی ہے بلکہ تحریک آزادی کے جمہوری محاذ، خاص کر انسانی حقوق کی تحریک اور تحریک کے ایک فعال تنظیم بلوچ یکجہتی کمیٹی ( بی وائی سی)، اس کی قیادت اور سرگرم کارکنوں اور حامیوں کے خلاف ریاستی طاقت و تشدد کے استعمال اور منفی پروپیگنڈے کیلئے بھی اس بے بنیاد بیانیہ کو استعمال کر رہی ہے۔

بولان میں جعفر ایکسپریس ٹرین پر بی ایل اے کے حملہ اور ریل میں سوار چھٹی پر جانے والے فوجی اہلکاروں سمیت ٹرین کے بعض مسافروں کو یرغمال بنائے جانے کے بعد جھڑپوں میں شہید ہونے والے سرمچاروں کی لاشوں کو جب کوئٹہ کی اسپتالوں میں لائی گئی تو ان میں سے درجن بھر میتوں کو ان کی شناخت کا تعین کئے بغیر دفنانے کی خبریں میڈیا میں آئیں جس پر بلوچ لاپتہ فرزندوں کے ورثاء میں تشویش کی لئر دوڑ گئی کہ کہیں ان کے پیاروں کو بولان آپریشن کے دوران جعلی مقابلوں میں قتل کرکے اسپتال لایا تو نہیں گیا ہے کیونکہ ماضی میں فوج اور سی ٹی ڈی ایسے مواقع پر لاپتہ بلوچوں کو جعلی مقابلوں میں قتل کرتے رہے ہیں اسلئے وہ بڑی تعداد میں سول اسپتال کوئٹہ میں موجود میتوں کی شناخت کیلئے اسپتال کے باہر جمع ہونا شروع ہوگئے۔ فوج اور کھٹ پتلی حکومت نے ان کے اس اجتماع کو اسپتال پر حملہ قرار دے کر بی وائی سی کے خلاف کرک ڈاؤن شروع کردیا تھا۔ پاکستانی فوج کا ترجمان بی وائی سی اور اس کی قیادت کو بلوچ عسکری تنظموں کا ترجمان اور بھارتی فنڈڈ کہہ کر اس کے خلاف بھی بھرپور پروپیگنڈہ کر رہی تھی۔ بھارت و پاکستان کے درمیان محدود جنگ اور کشیدگی کے بعد بی وائی سی کے خلاف کریک ڈاؤن اور منفی پروپیگنڈے میں شدت لائی گئی۔ اس وقت بی وائی سی کی قیادت اور متحرک ارکان تھری ایم پی او اور جھوٹے مقدمات میں پسِ زندان ڈال دیئے گئے ہیں۔ بی وائی سی کے خلاف فوجی ترجمان اور ان کے میڈیا ٹاؤٹس کے پرپیگنڈہ مہم سے لگتا ہے کہ ریاست اس پر پابندی لگانے کیلئے جواز تراش رہی ہے اور ماحول بنارہی ہے مگر ریاست پر یہ اقدام بھاری پڑے گا کیونکہ انسانی حقوق کے اس تحریک کو نہ صرف بلوچ عوام کی پرجوش حمایت حاصل ہے بلکہ علاقائی اور عالمی سطح پر بھی اس تحریک کو کافی پزیرائی حاصل ہے۔

٭٭٭

Share This Article