پاکستان : مذہبی انتہا پسندی کی نرسری اور تجربہ گاہ:” سر سید سے لے کر لشکرخراسان (داعش) تک” | ڈاکٹر جلال بلوچ

ایڈمن
ایڈمن
25 Min Read

برطانوی سامراج اور امریکہ کی پشت پناہی سے ہندوستان کی تقسیم ممکن ہوئی، جس کے نتیجے میں ایک غیر فطری ریاست، یعنی پاکستان، کو وجود بخشا گیا۔ اس ریاست کے قیام کا بنیادی مقصد سوویت انقلاب کی پیش قدمی کو روکنا تھا، اور اس غرض کے لیے مذہبی شدت پسندی کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا. درحقیقت، برطانیہ نے ہندوستان پر قبضے کے فوراً بعد ہی ایسے مذہبی رجحانات کو فروغ دینا شروع کر دیا تھا، جو بعد ازاں پورے خطے، خصوصاً ہندوستان اور افغانستان، کو اپنی لپیٹ میں لے گئے۔ برطانوی نوآبادیاتی مذہبی منافرت کی یہ پالیسی بلوچ سماج میں پوری طرح ناکام رہی۔ تاہم، برطانیہ کے انخلاء کے بعد، اسی کی تشکیل کردہ نو زائیدہ ریاست نے مذہبی شدت پسندی کو منظم انداز میں پروان چڑھایا تاکہ اس زہر کا اثر بلوچ معاشرے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکے۔ یہ اسی ریاستی پالیسی کا شاخسانہ ہے کہ جہاں برطانوی دور تک اس خطے میں فرقہ واریت اجنبی تھی، وہیں آج بلوچستان میں ایک مخصوص انتہاپسند سوچ ریاستی سرپرستی میں متحرک نظر آتی ہے۔ اگرچہ بلوچ سماج پر آئی ایس آئی کی اس پالیسی کا اثر کتنا ہوا، یہ ایک بحث طلب سوال ہے، مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مذہبی انتہا پسندی اب پورے خطے کے لیے، بلکہ عالمی سطح پر بھی، ایک ناسور بن چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں مذہبی شدت پسندی کے بیشتر واقعات کی جڑیں کسی نہ کسی طور پر پاکستان سے جا ملتی ہیں۔

میرے استادِ محترم، مرحوم پروفیسر عبدالوہاب شاہ صاحب، نے ایک واقعہ سنایا:
"یہ اسی کی دہائی کی بات ہے۔ میں کسی کام سے مستونگ جا رہا تھا۔ جونہی ہماری ویگن سریاب کسٹم سے آگے بڑھی، ڈرائیور نے ٹیپ ریکارڈر میں ایک مذہبی تقریر چلا دی۔ یہ تقریر شدت پسند تنظیم لشکرِ جھنگوی کے کسی رہنما کی تھی، جس میں سوائے نفرت انگیز باتوں کے کچھ نہ تھا۔ چونکہ بلوچستان ایک روشن خیال معاشرہ ہے، میرے لیے یہ تجربہ نیا اور چونکا دینے والا تھا۔ میں وہیں سمجھ گیا کہ ریاست ہمارے معاشرے کو بگاڑنے کا تہیہ کر چکی ہے۔ اگر قوم نے اس سوچ کا قلع قمع نہ کیا تو ایک دن یہ ہمارا پورا معاشرہ لہولہان کر دے گی۔”

استادِ محترم کا یہ واقعہ سنانے کا مقصد، دراصل، اُس غیر فطری ریاست کے اصل عزائم کو واضح کرنا تھا۔ اب آئیے، ذرا اس کی تشکیل کے پس منظر پر نظر ڈالتے ہیں۔

ہم نے دیکھا کہ پاکستان جیسی ایک غیر فطری ریاست، جس کی بنیاد ہی اس کے آقاؤں نے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کر کے رکھی، کس طرح معرضِ وجود میں آئی۔ اس ضمن میں، انگریز سامراج نے سرسید احمد خان کے پیش کردہ دو قومی نظریے کو فروغ دے کر برصغیر میں مذہبی منافرت کے بیج بوئے۔ اس من گھڑت نظریے نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فاصلوں کو بڑھایا۔ مگر برطانوی سامراج نے یہاں بس نہیں کیا؛ انہوں نے دیوبندی اور بریلوی مسالک کے درمیان خلیج کو مزید گہرا کرنے کی پالیسی بھی اپنائی، جس کے تاریخی شواہد آج بھی بآسانی دستیاب ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ برطانوی سامراج کی ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی مزید واضح ہوتی چلی گئی۔ یہی پنجابی، جو اُس وقت ہندوؤں اور دیوبندیوں سے نفرت کرتے تھے، سامراجی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے برطانوی فوج میں شامل ہونا گویا ایک الٰہی فریضہ سمجھتے تھے۔ چونکہ اُس دور میں بریلوی مکتبِ فکر اکثریت میں تھا، لہٰذا برطانوی سرکار کی نظرِ عنایت بھی انہی پر مرکوز رہی۔ پنجاب کی مذہبی و سیاسی سوچ نے سامراج کی خدمت کو باعثِ فخر سمجھا، اور یہی وجہ ہے کہ برطانوی فوج اور اس کے مقامی کارندوں میں تقریباً ستر فیصد پنجابی شامل تھے، جنہوں نے 1858ء کی جنگِ آزادی میں مذہبی تقسیم کی بنیاد پر ہندوستانی عوام کا بے دریغ قتل کیا۔

برطانوی مفادات کے تحفظ میں صرف برصغیر ہی نہیں، بلکہ ایشیا اور افریقہ کے دیگر خطے بھی شامل تھے، جہاں انہوں نے اپنی خون ریزی سے دجلہ و فرات کو شرما دیا۔ انہی ’’خدمات‘‘ کے صلے میں انگریزوں نے اپنے وفاداروں کو جاگیریں عطا کیں۔ یہی وفادار بعد ازاں پاکستانی اشرافیہ کی شکل میں ابھرے، خواہ وہ بھٹو خاندان ہو، شتربان شریف خاندان، جعفر مرزا کے جانشین سکندر مرزا، پنجاب کے قریشی، یا سندھ و پنجاب کے گیلانی ہوں۔ موجودہ پاکستانی مقتدر طبقے میں شاذ ہی کوئی ایسا خاندان ملے گا جس کے آبا و اجداد نے انگریز سامراج کی خدمت کو ’’وحی الٰہی‘‘ نہ سمجھا ہو۔

انگریزوں نے اس سرزمین میں نفرت کے جو بیج بوئے، اُنہیں تناور درخت بنانے کا کام اُنہی لوگوں نے کیا جو انگریز کی دلالی کو فرضِ عین سمجھتے تھے۔ ان میں اکثریت اُن نام نہاد مسلمانوں کی تھی جو آج کے پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔

دوسری جنگِ عظیم کے بعد، جب برطانیہ ہندوستان سے انخلا پر مجبور ہوا، تو اس نے خطے میں اپنے سیاسی و تزویراتی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک قابلِ اعتماد ’’چوکیدار‘‘ کی ضرورت محسوس کی۔ اُس وقت عالمی سطح پر سوشلسٹ انقلاب کی بازگشت سنائی دے رہی تھی، اور سامراجی ریاستوں کے لیے سوویت یونین ایک حقیقی خطرہ تصور کیا جا رہا تھا۔ برطانیہ کی اس تزویراتی حکمتِ عملی کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ وہ برصغیر میں ایک ایسی ریاست کی تشکیل کرے جو مستقبل میں سرمایہ دارانہ مغرب کے ’’پے رول‘‘ پر کام کر سکے۔

چنانچہ 1946ء کے آس پاس پاکستان کے قیام کا منصوبہ برطانوی اداروں میں زیرِ غور آیا، اور محمد علی جناح، جو اُس وقت برطانیہ میں وکالت کر رہے تھے، کو دوبارہ ہندوستان لا کر اس مقصد کے لیے متحرک کیا گیا۔ ’’مطالعہ پاکستان‘‘ میں اس عمل کو ایک اسلامی تحریک کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، تاہم تاریخ کے کئی ماہرین کے مطابق اس کے پسِ پشت برطانوی مفادات اور سیاسی انجینئرنگ کا کردار تھا۔

پاکستان کے معروضِ وجود میں لانے کے پس منظر میں کوئی نظریہ کارفرما نہیں تھا، بلکہ سرد جنگ کے آغاز اور عالمی سیاست کے تناظر میں یہ فیصلہ ایک پیچیدہ جغرافیائی و سیاسی عمل کا نتیجہ تھا۔ برطانوی حکومت کو اس خطے میں سوویت یونین کے اثرات کے خلاف ایک بفر زون کی ضرورت تھی، اور پاکستان کو اسی مقصد کے لیے قائم کیا گیا۔

انہی دنوں گورداسپور سے تعلق رکھنے والے محمد شریف، جو بعد میں ’’نسیم حجازی‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے، کو یہ ’’ادبی فریضہ‘‘ سونپا گیا کہ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے ایک مخصوص تاریخی بیانیہ تشکیل دیں۔ ان کی تحریروں کا مقصد نہ صرف مسلمانوں کے جذبات کو مذہبی بنیادوں پر ابھارنا تھا، بلکہ دیگر مذاہب اور برادریوں کے خلاف نفرت انگیزی کو ماضی کی اسلامی فتوحات کے رومانوی پردے میں چھپانا بھی تھا۔

نسیم حجازی کے ناولوں میں دیگر مذاہب سے نفرت کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا۔ 1946 میں تحریر کردہ ان کی ابتدائی تصنیف ’’داستانِ مجاہد‘‘ میں محمد بن قاسم، جنہوں نے ہندوستان پر حملوں کی راہ ہموار کی، کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا، جبکہ مقامی غیر مسلموں کو یا تو دشمن، کافر یا جہنمی کے طور پر دکھایا گیا۔ ان کی تمام تحریروں میں فرقہ وارانہ سوچ اور فکری شدت پسندی کا رنگ نمایاں ہے، جو اُس وقت کے سیاسی ماحول اور مسلم لیگ کی مہمات کو جذباتی جواز فراہم کرتا تھا۔

نسیم حجازی کی تحریریں محض ادبی ناول نہ تھیں، بلکہ وہ ایک خاص ذہنی و فکری بیانیے کی تشکیل کا ذریعہ تھیں۔ ان ناولوں میں تاریخی واقعات کو یکطرفہ انداز میں پیش کیا گیا، اور جا بجا ’’اسلام بمقابلہ کافر‘‘ کا تصور ابھارا گیا۔ ایسے بیانیے نے نہ صرف مسلمانوں میں مصنوعی فخر کے جذبات کو پروان چڑھایا، بلکہ دیگر برادریوں کے ساتھ نفسیاتی خلیج کو بھی مزید گہرا کیا۔
نسیم حجازی کی زبان میں جوش، فخر اور مذہبی ولولہ تو بدرجۂ اتم موجود تھا، مگر ان کی تحریروں میں تحقیق، تنوع اور حقیقت پسندی کا فقدان نمایاں ہے۔ ان کی کتب نے ایک مخصوص ذہنی سانچے کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا، جس کا اثر آج تک پاکستان کے تعلیمی اور فکری ماحول میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔

یہی طرزِ فکر پاکستان کے نصابِ تعلیم میں بھی نمایاں ہے، جب کہ دینی مدارس کی کتابوں میں تو اس کے سوا کچھ اور دکھائی ہی نہیں دیتا۔ نہ انسانیت کا کوئی درس، نہ تخلیق و تنقید کی کوئی گنجائش۔

جب بنگال نے اپنی آزادی کا مطالبہ کیا تو ریاست نے مذہبی شناخت کو قومی سلامتی کے بیانیے کے طور پر پیش کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب 1948ء میں وہاں پہلی مرتبہ سیاسی حقوق اور لسانی شناخت کے لیے آواز بلند ہوئی، تو ریاست نے اس مطالبے کو "اسلامی وحدت” کے خلاف ایک سازش قرار دیا۔ تاہم، بنگالی عوام پنجاب کے عزائم کو بھانپ چکے تھے، اسی لیے انہوں نے اپنی تحریک کو مزید منظم کیا، اور بالآخر 1971ء میں اس غیر فطری ریاست سے آزادی حاصل کی۔ اس تحریکِ آزادی کو کچلنے کے لیے پاکستان نے "الشمس” اور "البدر” کے نام سے ایسے گروہ تشکیل دیے، جن کے طرزِ عمل سے پنجاب کی شدت پسندانہ سوچ بے نقاب ہوئی۔

مذہب کو ایک حربے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے بنگالی عوام کے خلاف ظلم و بربریت کی بدترین مثال قائم کی گئی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق اس خونی کارروائی میں تقریباً 30 لاکھ افراد جاں بحق ہوئے اور 20 ہزار سے زائد خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

حیرت انگیز امر یہ ہے کہ آج بھی کئی سادہ لوح افراد اس المیے پر سوال نہیں اٹھاتے، بلکہ مذہب کی آڑ میں اس درندگی کو جائز قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ افسوس کہ ریاست نے اس سفاکانہ کارروائی کو "جہاد” کا نام دے کر نہ صرف انسانیت کے قتلِ عام کو جائز ٹھہرایا، بلکہ مذہب کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے ایک خطرناک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ ایسا خونچکاں منظر تاریخ میں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ جب بھیڑیا انسانی خون کا مزہ چکھ لے، تو وہ ہمیشہ شکار کا متلاشی رہتا ہے۔ کچھ یہی حال اس ریاست کا بھی ہے، جو بنگال میں ظلم و ستم کی داستان رقم کرنے کے بعد افغان سرزمین کی جانب بڑھ گئی۔ یہاں بھی وہی مذہبی سوچ کارفرما تھی، جس کی بنیاد پر اس غیر فطری ریاست کی تشکیل ہوئی تھی۔ تاہم، اس بار یہ منصوبہ زیادہ منظم انداز میں نافذ کیا گیا۔ سعودی عرب اور امریکہ کی مالی و فکری معاونت سے ریاست نے مدارس کا ایک وسیع جال بچھایا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق، صرف سویت یونین کے خلاف "جہاد” کو فروغ دینے کے لیے تقریباً پندرہ ہزار مدارس قائم کیے گئے۔ ان مدارس میں نہ صرف مخصوص مذہبی تعبیرات کی تعلیم دی گئی، بلکہ فرقہ وارانہ بیانیے اور جنگی نظریات کی تربیت بھی دی جاتی رہی، جو سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

ان اداروں کے طلبہ کو آئی ایس آئی کی نگرانی میں عسکری تربیت دی گئی اور انہیں افغانستان میں سویت افواج کے خلاف "مجاہدین” کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اس پورے منصوبے کو مذہبی جہاد کا درجہ دے کر ریاستی پالیسی کا حصہ بنایا گیا، اور وقتاً فوقتاً ریاستی مقتدر حلقوں کی جانب سے اس پر فخر کا اظہار بھی کیا جاتا رہا۔

اس جنگ کے نتیجے میں وہ افغانستان، جو کبھی ترقی کی راہ پر گامزن تھا، کھنڈرات میں بدل گیا۔ وہ معاشرہ، جس نے ایک وقت روشن خیالی اور ترقی پسندی کو اپنایا تھا، مذہبی شدت پسندی کا مرکز بن کر رہ گیا۔ وہی پشتون، جو باچا خان کی قیادت میں قوم پرستی، امن اور ترقی کا پیغام لیے میدان میں نکلے تھے، ریاستی بیانیے کے زیرِ اثر مذہبی لبادہ اوڑھنے پر مجبور کر دیے گئے۔ ریاستی منصوبہ بندی اس قدر کامیاب رہی کہ اکثریت نے قوم پرستانہ شعور کے بجائے مذہبی جذبات کو "رضائے الٰہی” سمجھ کر قبول کر لیا۔ اس سوچ نے اتنی گہری جڑیں پکڑ لیں کہ لاکھوں پشتونوں کے ریاستی اداروں کے ہاتھوں قتل کے باوجود وہ آج بھی اس بیانیے سے خود کو آزاد نہ کرا سکے۔

اگر کشمیر کی بات کی جائے تو وہاں بھی سماج کو زہر آلود کرنے کے لیے "جہاد” کی پالیسی اپنائی گئی۔ ابتدائی طور پر پشتونوں کو کشمیر میں استعمال کیا گیا، بعدازاں اس بیانیے کو مزید وسعت دی گئی۔ اس مقصد کے لیے ریاستی سطح پر مذہبی جماعتوں، خصوصاً جماعت اسلامی، کی خدمات حاصل کی گئیں۔ وہی جماعت اسلامی جس کے رہنما لیاقت بلوچ کا بیٹا، جبران، حالیہ دنوں کینیڈا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر چکا ہے۔ پاکستان نے کشمیر پر قبضے کی کوشش کو مذہبی رنگ دے کر اسے ہندوستان کے خلاف جہاد قرار دیا، اور اس مقصد کے لیے لشکرِ طیبہ جیسے گروہوں کی سرپرستی کی۔ ان گروہوں نے آئی ایس آئی کی نگرانی میں پنجاب اور پاکستانی زیرِ قبضہ کشمیر میں عسکری تربیتی کیمپ قائم کیے، جن میں افرادی قوت کی فراہمی مدارس اور مذہبی جماعتوں کے ذمے تھی۔ انہی کیمپوں میں اجمل قصاب اور شفیق مینگل جیسے افراد کو تربیت دی گئی۔ شفیق مینگل، جو آئی ایس آئی کا تیار کردہ مہرہ تھا، نے بلوچستان میں جو مظالم ڈھائے، وہ وہاں کے عوام بخوبی جانتے ہیں۔ اس کا گروہ بلوچستان میں مذہبی انتہاپسندی کو فروغ دینے کی بھرپور کوشش کرتا رہا، تاہم انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔

ہندوستان کی طرح ایران کے خلاف بھی پاکستان نے مغربی بلوچستان میں اسی پالیسی کو اختیار کیا۔ ایران کے خلاف سرگرم گروہوں، خصوصاً جیش العدل، کے کارندے ماشکیل، پنجگور اور کیچ کے فوجی کیمپوں کو اپنی پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ یہ کیمپ نہ صرف ایران کے خلاف عسکری کارروائیوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں بلکہ بلوچ آزادی پسندوں کے خلاف بھی ان گروہوں کو فعال رکھا جاتا ہے۔

بلوچستان میں ریاستی سوچ اور پالیسیوں کا جائزہ لیتے ہوئے 1986ء کا وہ المناک واقعہ ذہن میں آتا ہے، جب پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے کوئٹہ کے علاقے مری آباد میں مقیم ہزارہ برادری کے خلاف ایک منظم آپریشن کیا۔ اس کارروائی کی قیادت اُس وقت کے کوئٹہ سٹی کے ڈی ایس پی ہمایوں جوگیزئی کر رہے تھے۔ اس خونی آپریشن میں ہزارہ برادری کے سینکڑوں افراد کو بے دردی سے قتل کیا گیا، جو ریاستی جبر اور اقلیت دشمنی کی ایک سنگین مثال ہے۔

اسی عرصے میں شدت پسند تنظیم "لشکر جھنگوی” کا قیام بھی عمل میں آیا، جس نے فرقہ واریت کو مزید ہوا دی۔

یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ستر کی دہائی کے بعد، 1986ء میں بلوچ آزادی پسندوں نے بلوچستان میں اپنے عسکری ٹھکانے قائم کرنے کا آغاز کیا۔ ان تمام واقعات کا باہمی تعلق ریاست کی اُس پالیسی سے جڑا ہے، جو آزادی پسند سوچ کو دبانے کے لیے مذہب، فرقہ واریت اور شدت پسندی کو بطور آلہ استعمال کرتی رہی ہے۔

ریاست کو یہ اندیشہ لاحق تھا کہ اگر یہ تحریک دوبارہ شدت اختیار کر گئی تو اسے روکنا ممکن نہیں ہوگا۔ لہٰذا اس نے اپنے مذموم عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اقدامات تیز کر دیے۔ ماضی کے تجربات سے اسے بخوبی اندازہ ہو چکا تھا کہ مذہب کا ہتھیار بنگال، کشمیر اور افغانستان جیسے خطوں میں کس قدر مؤثر ثابت ہوا ہے۔ چنانچہ بلوچ معاشرے میں فکری انتشار پیدا کرنے کے لیے بھی اسی ہتھکنڈے کو اپنایا گیا۔

تاہم ہم نے دیکھا کہ ریاست اپنے اس مقصد میں ناکام رہی اور بلوچ سماج کی فکری ساخت کو بدلنے میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ اس دوران اگرچہ بلوچستان میں مدارس کا جال بچھایا گیا اور بڑے پیمانے پر نفرت انگیز تحریری مواد پھیلایا گیا، مگر عوامی شعور نے ان کوششوں کو قبول نہ کیا۔ جب یہ حکمتِ عملی ناکام ثابت ہوئی تو ریاست نے مسلح مذہبی شدت پسندوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے کی ذمہ داری اپنے منظورِ نظر ٹاؤٹس کے سپرد کر دی، جن میں اکثریت سنڈیمنی سرداروں کی تھی۔ بعد ازاں ہم نے دیکھا کہ ساروان، جھالاوان، رخشان اور مکران کے بعض علاقوں میں ان گروہوں نے عسکری اڈے قائم کیے، جن پر آزادی پسندوں نے کئی مرتبہ حملے بھی کیے، کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کا روشن خیال معاشرہ مذہبی منافرت کی دلدل میں دھنس جائے — جو کہ زہرِ ہلاہل سے کم نہیں۔

چونکہ مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرنا پاکستان کی ریاستی پالیسی کا مستقل حصہ رہا ہے، اس لیے وقت کے ساتھ ساتھ یہ رجحان مزید شدت اختیار کرتا گیا۔ حالیہ برسوں میں ریاستی سرپرستی میں سرگرم مذہبی شدت پسند گروہوں کو دوبارہ منظم کر کے بلوچ عوام کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال حال ہی میں ایک نام نہاد تنظیم "لشکرِ خراسان” کا منظرِ عام پر آنے والا ویڈیو پیغام ہے، جس میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بلوچوں نے ان کے تیس کارندوں کو قتل کیا ہے اور وہ اس کا بدلہ ضرور لیں گے۔ یہاں تک کہ وہ سڑکوں پر، جبری گمشدگی کا شکار اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے پرامن احتجاج کرنے والی خواتین اور بچوں کو بھی کھلم کھلا دھمکیاں دے رہے ہیں۔ یہ وہی خواتین ہیں جن کی پرعزم جدوجہد کے باعث آج بلوچ مسئلہ عالمی سطح پر اجاگر ہو چکا ہے، اور خود بلوچ سماج بھی پہلے سے کہیں زیادہ بیدار اور متحرک ہو چکا ہے۔

یہی بیداری ریاست کے لیے ایک مستقل پریشانی کا باعث بن چکی ہے، چنانچہ اب وہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے مذہب کے کارڈ کو آخری ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے پر تُل چکی ہے۔ وگرنہ آئی ایس پی آر اور پاکستانی مقتدرین کے بیانات اور لشکرِ خراسان کی سوچ میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا—جو اس بات پر مہرِ تصدیق ثبت کرتا ہے کہ یہ سب ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے۔

ریاستی بیانیے کے حوالے سے یہ بات قابلِ غور ہے کہ یہ صرف ایک نظریاتی دعویٰ نہیں بلکہ باقاعدہ ریاستی پالیسی کا حصہ رہا ہے، جس کی تصدیق مختلف اوقات میں ریاستی مقتدرین کے بیانات سے ہوتی رہی ہے۔ حالیہ دنوں اس پالیسی کا اظہار اُس وقت کھل کر سامنے آیا جب پاکستان کے وزیرِ دفاع، خواجہ آصف، نے قومی اسمبلی میں کہا: "مدرسوں کے طلبہ ہماری سیکنڈ لائن ڈیفنڈرز ہیں۔” یہ بیان نہ صرف اس بیانیے کی توثیق کرتا ہے بلکہ اس بات کا ثبوت بھی فراہم کرتا ہے کہ مذہبی اداروں کو ریاستی دفاعی حکمتِ عملی کا حصہ تصور کیا جاتا رہا ہے۔

اس ضمن میں ماضی کی قیادت کے بیانات بھی اس ریاستی پالیسی کی تائید کرتے ہیں۔ مثلاً، سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل نے کہا تھا: "افغان جنگ کے دوران پشاور میں قائم ‘البدر کیمپ’ میں ہم مجاہدین کو تربیت فراہم کرتے تھے، جس کے بعد انہیں سوویت یونین کے خلاف لڑنے کے لیے افغانستان بھیجا جاتا تھا۔” اسی طرح، سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے بھی واضح الفاظ میں تسلیم کیا تھا:1989 کے بعد ایک تبدیلی آئی، اور ہم نے پاکستان کے مفاد میں مذہبی عسکری قوتوں کو فروغ دیا۔ اس کا مقصد سوویت یونین کو افغانستان سے نکالنا تھا۔ ہم نے دنیا بھر سے مجاہدین کو جمع کیا، انہیں تربیت دی، اسلحہ فراہم کیا، اور افغانستان روانہ کیا۔ وہ ہمارے ہیرو تھے۔”

یہ تمام بیانات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ریاست نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت مذہبی شدت پسندی کو ایک حکمتِ عملی کے طور پر اپنایا۔ اس عمل کے مضمرات نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے اور عالمی امن کے لیے بھی نہایت خطرناک ثابت ہوئے ہیں۔

یہ ریاست، جو شدت پسندی کی باقاعدہ فیکٹری بن چکی ہے، نہ صرف اپنے ہمسایہ ممالک بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک مستقل خطرہ بن چکی ہے۔ ماضیِ قریب میں یورپ میں ہونے والے کئی دہشت گرد حملوں کے تانے بانے بھی کسی نہ کسی شکل میں اسی ریاستی پالیسی سے جڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

***

Share This Article