بی این ایم کا تعلیمی پروگرام: معدنی وسائل کی عالمی طلب کے باعث بلوچستان بین الاقوامی طاقتوں کی نظر میں آچکا ہے

ایڈمن
ایڈمن
4 Min Read

بلوچ لکھاری یاسین غنی نے بلوچ نیشنل موومنٹ کے ایک تعلیمی پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا چین کی دلچسپی گوادر اور معدنیات میں ہے، جبکہ مغربی طاقتیں بھی خطے کی تبدیل ہوتی ہوئی سیاست پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ سونا، تانبا، لوہا، کرومائیٹ، کوئلہ، گیس، سلفر، تیل، اور بعض دیگر نایاب اور دوسرے قیمتی معدنیات یہاں پائی جاتی ہیں جو عالمی معیشت اور ٹکنالوجی کے لیے بے حد اہمیت رکھتی ہیں۔ان وسائل کی عالمی طلب کے باعث بلوچستان اب بین الاقوامی طاقتوں اور سرمایہ داروں کی نظر میں آ چکا ہے۔ دوسری جانب بحثیت ہم بلوچ اپنے وسائل کی کس طرح حفاظت کرتے ہیں، یہ ہمارے ہاتھ میں ہے تاہم ہمیں وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے فیصلے لینے پڑیں گے۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نے بلوچ نیشنل موومنٹ کے ادارہ تعلیم و تربیت ( کیپسٹی بلڈنگ کونسل ) کی جانب سے ’’ معدنی وسائل، اور عالمی تناظر میں ان کی اہمیت و افادیت ‘‘کے موضوع پر تعلیمی پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ پروگرام کا میزبان برطانیہ چیپٹر کے اعجاز بلوچ تھے۔

بلوچستان کے وسائل کے حوالے سے انھوں نے مزید کہا کہ بلوچستان دنیا میں فطری وسائل کے حوالے سے مالا مال خطوں میں شمار ہوتا ہے۔ انہی وسائل نے بلوچستان کو قابض قوتوں کے نشانے پہ رکھا ہوا ہے۔ چاہے وہ پاکستان کی جانب سے گیس ‏، سنگ مرمر، کوہلہ، کرومائیٹ وغیرہ کی لوٹ مار ہو، یا چین کی شکل میں سینڈک پروجیکٹ ہو یا گرم پانیوں تک رسائی۔ چین نے ان منصوبوں پہ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کررکھی ہے تاکہ ان کا خطہ بلوچستان کے وسائل سے خود کفیل بن جائے۔

یاسین غنی نے مزید کہا کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ بلوچستان کے ان علاقوں بلخصوص سینڈک سے سونا اور تانبا بڑی مقدار میں نکالا جارہا ہے، لیکن مقامی آبادی کو بدلے میں صرف ماحولیاتی تباہی اور فوجی چوکیاں ملی ہیں، جبکہ بلوچستان کے اکثر علاقے "حساس” قرار دے کر فوجی زون بنا دیے گئے ہیں۔ سیکورٹی چیک پوسٹوں پر لوگوں کی تذلیل، جبری گمشدگیاں، اور ماورائے عدالت قتل معمول بن چکا ہے۔ بلوچ نوجوان صرف شک کی بنیاد پر جبری لاپتہ کئے جاتے ہیں، ان تمام مظالم میں چین جیسے عالمی سامراجی قوتوں کو اہم کردار ہے۔ کیوں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ محکوم اقوام کوجارحیت کا نشانہ بناکے ان کے موقف سے بیگانہ کیا جاسکتا ہے۔

یاسین غنی کا کہنا تھا کہ ویسے ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے ہیں کہ جہاں مزاحمت سرچڑھ کر بولے وہاں دنیا بھی سرمایہ کاری سے گریز کرتی ہے اور یہ بلوچوں کی خوش قسمتی ہے کہ بلوچ خطے میں مزاحمت اپنے عروج پر ہے جس سے سرمایہ کار بھی اپنا پیسہ لگانے سے گریز کررہے ہیں۔ کیوں کہ انھیں اس بات کا ادراک ہے کہ ایسا خطہ جہاں شدت کے ساتھ مزاحمت ہورہی ہو وہاں سرمایہ کاری ممکن نہیں۔

Share This Article