برطانیہ ان 49 افراد اور اداروں پر پابندیاں عائد کر رہا ہے جو برطانوی حکومت کے مطابق حالیہ سالوں میں انسانی حقوق کی ‘بدترین’ خلاف ورزیوں میں ملوث رہے ہیں۔
روسی وکیل سرگئی میگنیٹسکی کے سنہ 2009 میں ہونے والے قتل میں ملوث افراد کے برطانیہ میں موجود اثاثے منجمد کر دیے جائیں گے جبکہ ان کے برطانیہ میں داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی جائے گی۔
اور سنہ 2018 میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث سعودی حکام بھی اس پابندی کی زد میں آئیں گی۔
اسی طرح میانمار کی فوج کے دو جنرل بھی روہنگیا برادری کے خلاف مظالم پر ان پابندیوں کے شکار ہوں گے۔
برطانیہ کے وزیرِ خارجہ ڈومینیک راب نے کہا کہ یہ اقدام ‘ایک واضح پیغام’ ہے۔
برطانوی پارلیمان کے دارالعوام میں خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ برطانیہ ‘ڈکٹیٹروں کے غنڈوں’ کے خلاف ایکشن لے رہا ہے اور ان لوگوں کو روک رہا ہے جو ‘خون میں لتھڑی ہوئی ناجائز دولت’ کو صاف کرنا چاہتے ہیں۔
روس نے کہا ہے کہ یہ پابندیاں ‘نامعقول’ ہیں اور دھمکی دی ہے کہ وہ بھی جواباً ایسے اقدامات کر سکتا ہے۔
لندن میں روسی سفارت خانے نے کہا ‘روس کے پاس برطانیہ کے آج کے غیر دوستانہ فیصلے پر ردِعمل دینے کا حق محفوظ ہے’ اور یہ بھی کہا کہ اس اقدام سے ‘برطانیہ اور روس کے تعلقات بہتر نہیں ہوں گے۔’
یہ پابندیاں برطانیہ کی جانب سے یورپی یونین اور اقوامِ متحدہ سے ہٹ کر آزادانہ طور پر لگائی گئی پہلی پابندیاں ہیں۔
وہ افراد اور ادارے جو ان پابندیوں کی فوری زد میں آئیں گے، وہ مندرجہ ذیل ہیں:
روسی ٹیکس اور پولیس حکام کی جانب سے وسیع تر بدعنوانی سے پردہ اٹھانیے والے وکیل سرگئی میگنٹسکی سے بدسلوکی اور ان کے قتل میں ملوث 25 روسی شہری
صحافی جمال خاشقجی کے استنبول میں واقع سعودی سفارتخانے میں قتل میں ملوث 20 سعودی شہری
میانمار کی فوج کے دو جنرل جو روہنگیا اور دیگر اقلیتی قوموں کے خلاف منظم اور بے رحمانہ تشدد میں ملوث ہیں
دو تنظیمیں جو شمالی کوریا کے حراستی مراکز میں جبری مزدوری، تشدد اور قتل میں ملوث ہیں
ڈومینیک راب کا کہنا تھا کہ ان پابندیوں کی زد میں آنے والے لوگ ماورائے عدالت قتل بشمول سیاسی فائدے کے لیے قتل، تشدد، بدسلوکی، جبری مشقت اور غلامی کروانے میں ملوث ہیں۔
اس فہرست میں روس کے محکمہ داخلہ کے ایک سابق وزیر اور سعودی انٹیلیجنس سروسز کے سابق نائب سربراہ بھی شامل ہیں۔
انھیں برطانیہ میں داخل ہونے، برطانیہ میں دولت لانے، یا جائیداد اور دیگر اثاثوں کے ذریعے برطانوی معیشت سے فائدہ اٹھانے سے روک دیا جائے گا۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ڈومینیک راب کا کہنا تھا کہ اس فہرست پر ‘مسلسل نظرِثانی’ کی جاتی رہے گی اور حکومت ‘پہلے ہی اس میں مزید افراد کے نام شامل کرنے پر کام کر رہی ہے۔’
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس سے سعودی عرب کے ساتھ برطانیہ کے تجارتی تعلقات متاثر نہیں ہوں گے، تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ‘اخلاقی ذمہ داری کا معاملہ ہے’ اور ‘ہم انسانی حقوق کی بہیمانہ خلاف ورزی پر چشم پوشی نہیں کر سکتے۔’
میگنٹسکی ماسکو میں مقیم ایک وکیل اور آڈیٹر تھے۔ انھوں نے روسی ٹیکس حکام پر الزام عائد کیا کہ انھوں نے میگنٹسکی کی کلائنٹ برطانوی فرم ہرمیٹیج کیپٹل مینیجمنٹ کے ساتھ فراڈ کیا ہے۔ اس کے بعد ان کی پولیس کی حراست میں ہلاکت ہوگئی۔
انھوں نے پولیس کی حراست میں 11 ماہ گزارے جس دوران انھیں کئی زخم آئے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ ان پر ہونے والے تشدد کا نتیجہ تھا۔
یورپی یونین کی عدالتِ انسانی حقوق نے 2019 میں پایا کہ کہ انھیں اہم طبی نگہداشت سے محروم رکھا گیا اور حکام نے جان بچانے کی اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی۔
جمال خاشقجی سعودی حکومت کے ناقد تھے اور انھیں سعودی ایجنٹس کی ایک ٹیم نے استنبول میں واقع سعودی سفارتخانے کے اندر 2018 میں قتل کر دیا تھا۔
سعودی حکام کا کہنا ہے کہ یہ ‘باغی گروہ’ کا آپریشن تھا جو گڑبڑ کا شکار ہوا۔
دسمبر 2019 میں سعودی عرب کی ایک عدالت نے اس الزام میں پانچ لوگوں کو موت کی سزا اور تین دیگر کو قید کی سزا سنائی۔ مگر غیر ملکی حکومتوں اور اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ یہ ‘انصاف کی خلاف ورزی ہے۔’
برطانیہ کی جانب سے میانمار کی فوج کے دو سینیئر جنرلوں کے خلاف بھی ایکشن لیا جا رہا ہے۔ اقلیتی روہنگیا مسلمان برادری کے خلاف 2017 اور 2019 میں ریاستی جبر کیا گیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق یہ نسل کشی کی کوشش تھی۔
برطانیہ کے مطابق یہ دونوں جنرل من آنگ ہلینگ اور سو وین غیر قانونی قتل، تشدد، جبری مشقت اور منظم ریپ کے ذمہ دار ہیں۔
شمالی کوریا کی وزارت برائے سٹیٹ سیکیورٹی بیورو 7 اور وزارتِ پیپلز سیکیورٹی کریکشنل بیورو بھی اس فہرست میں شامل ہیں جن پر حراستی کیمپ چلانے کی ذمہ داری ہے۔