شمالی کوریا نے ہفتے کو اعلان کیا کہ اگر واشنگٹن پیانگ یانگ کے خلاف معاندانہ پالیسیاں ترک نہیں کرتا تو اس کا مستقبل قریب میں امریکہ ساتھ اپنے ایٹمی پروگرام کے بارے میں سربراہی مذاکرات کا کوئی امکان نہیں ہے۔
شمالی کوریا کے نائب وزیر خارجہ اول، چوئے سان ہوئی نے اپنے بیان میں دونوں ملکوں کے درمیان مسقبل قریب میں سربراہی ملاقات کے امکان کو رد کیا ہے۔
اس سے پیشتر اس ہفتے کے اوائل میں نیو یارک میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے امریکہ کے قومی سلامتی کے سابق مشیر جان بولٹن نے کہا تھا کہ صدر ٹرمپ امریکی صدارتی انتخابات سے ذرا پہلے اکتوبر میں شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ ان سے اچانک سربراہی ملاقات کر سکتے ہیں۔
نائب وزیر خارجہ چوئے نے کہا کہ شمالی کوریا کے خلاف امریکہ کی معاندانہ پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے کیا یہ ممکن ہے کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں یا کسی قسم کا تعلق قائم کیا جائے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پچھلی سربراہی ملاقات میں امریکہ نے جو وعدے کیے تھے ان سے وہ پہلے ہی، بقول ان کے، رو گردانی کر چکا ہے۔
دوسری طرف اسی ہفتے یورپی لیڈروں کے ساتھ ایک ویڈیو کانفرنس میں جنوبی کوریا کے لیڈر مون جائے ان نے کہا تھا کہ انہیں امید ہے کہ امریکی انتخابات سے قبل ٹرمپ اور کم کے درمیان ایک اور ملاقات ہو۔
جنوبی کوریا نے امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان تعلقات کی بحالی کے لیے ماضی میں خاصی کوششیں کی ہیں۔
سن2018ءکے بعد سے ٹرمپ اور کم کے درمیان تین ملاقاتیں ہو چکی ہیں، جن میں شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام اور اس کے خاتمے کے بارے میں دونوں لیڈروں نے تبادلہ خیال کیا۔
لیکن فروری 2019ءمیں یہ مذاکرات اس وقت تعطل کا شکار ہو گئے جب امریکہ نے شمالی کوریا کی یہ شرط ماننے سے انکار کر دیا کہ امریکہ شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام میں جزوی تخفیف کے وعدے کے عوض شمالی کوریا کے خلاف سخت پابندیاں ختم کر دے گا۔