بی وائی سی رہنما صبغت اللہ شاہ جی بھائی اور بھانجوں سمیت کوئٹہ سے جبری لاپتہ

ایڈمن
ایڈمن
4 Min Read

بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی ) کے قائدین کو ماورائے آئین چن چن کر جیل وزندانوں میں ڈالنے کا سلسلہ جاری ہے ۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ، بیبوبلوچ ، سمی دین بلوچ ، بیبرگ بلوچ و دیگر کی گرفتاری کے بعد صبغت اللہ شاہ جی بھائی کو گرفتاری کے بعد لاپتہ کردیا گیا ہے۔

بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں گزشتہ شب پاکستانی فورسز نے نے سیٹلائیٹ ٹاؤن معروف عالم دین مولانا عبدالحق مرحوم کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا اور وہاں سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سینئر رہنما شاہ جی صبغت اللہ کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا جس کے بعداس کی کوئی خبر نہیں ہے۔

صبغت اللہ شاہ جی سابق ایم این اے اور معروف بلوچ دانشور مرحوم مولانا عبدالحق بلوچ کے فرزند ہیں۔

چھاپے کے دوران فورسز نے شاہ جی کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر ثنا اللہ اور ان کے 2 بھانجوں آفتاب عالم اور شمس عالم کو بھی لاپتہ کیا۔

صبغت اللہ شاہ جی اور ان کے بھائی و بھانجوں کی جبری گمشدگی کی تصدیق ان کی فیملی نے کی ہے۔

فیملی کا کہنا ہے کہ کارروائی کے دوران فورسز نے انہیں ہراساں کیا، چادر و چار دیواری کی پامالی اور گھر والوں پر تشدد کیا۔

بی وائی سی نے بھی شاہ جی کی جبری گمشدگی کی تصڈیق کرتے ہوئے کہا کہ بی وائی سی کے مرکزی کمیٹی کے رہنما صبغت اللہ شاہ جی کو سیکورٹی فورسز نے ان کے گھر سے اغوا کر لیا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ ریاستی بربریت کی ایک اور کارروائی میں، سیکورٹی فورسز نے ہماری مرکزی کمیٹی کے رہنما صبغت اللہ شاہ جی کو سیٹلائٹ ٹاؤن، کوئٹہ میں ان کے گھر سے اغوا کر لیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری قیادت کی غیر قانونی نظر بندی اس تحریک کو نہیں توڑ سکے گی۔

جماعت اسلامی مستونگ کے امیرحافظ خالدالرحمان شاہوانی نے اپنے سوشل میڈیا میں بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں انتہائی افسوس ہے کہ ہمارے عظیم قائد، مولانا عبد الحق بلوچ رحمہ اللہ کے گھر پر ریاستی چھاپہ مارا گیا، جس میں نہ صرف ان کی عزت و توقیر کی پامالی کی گئی بلکہ ان کی اہلیہ محترمہ سے بدتمیزی کی گئی اور ان کے فرزندوں کو جبراً لاپتہ کر دیا گیا۔

ہم اس عمل کی شدید مذمت کرتے ہیں اور ریاست سے سوال کرتے ہیں کہ بلوچستان کے عوام کو جمہوری جدوجہد سے روک کر وہ کس پیغام کی ترغیب دے رہے ہیں؟ طاقت کے استعمال سے کبھی بھی امن قائم نہیں ہو سکتا، بلکہ اس سے مسائل مزید پیچیدہ اور خونریزی میں اضافہ ہوگا۔ ہم ریاست سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر اس غیر جمہوری اور غیر انسانی عمل کا نوٹس لے کر ان افراد کو بازیاب کرے، ہماری ماں بہنوں کو فوراً رہا کرے، اور بلوچستان میں امن و امان کی فضا قائم کرے۔ امن صرف طاقت کے استعمال سے نہیں بلکہ محبت، مکالمہ اور مسائل کے حل سے آ سکتا ہے۔ بلوچستان میں امن کے قیام کے لیے ریاست کو مذاکراتی راستہ اختیار کرنا ہوگا۔

Share This Article