بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور سمی بلوچ سمیت دیگررہنمائوں اور کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف بلوچستان میں آج بھی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہی۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر آج تونسہ شریف ، ماشکیل ،سوراب ، وڈھ وندر ،واشک ، پنجگور ، بلیدہ ، مند،تمپ اور ڈیرہ مراد جمالی میں احتجاجی مظاے ہوئے ، خواتین و بچوں کی بڑی تعداد دوسرے دن بھی اپنے قائدین کی رہائی کے لئے سڑکوں پر نکل آئی ہے اور ان کی ماورائے آئین گرفتاری کی شدید مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری کو بلوچستان میں پاکستانی فوج کی جنگی گرائم کو تدارک کےلئے انہیں جوابدہ بنانے کی اپیل کی ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی نے ان گرفتاریوں کے خلاف آج پارٹی کے زیر اہتمام کوئٹہ سمیت بلوچستان میں احتجاجی مظاہروں کے اعلان کے بعد کیا احتجاج کیاگیاہے۔
بی این پی کی جانب سے 28 مارچ کو خضدار کے علاقے وڈھ سے کوئٹہ تک لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا ہے۔
اپنے ایک ویڈیو پیغام میں بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا کہ ’ہمیں احساس ہے کہ رمضان کا ماہ ہے اور لوگ عبادتوں کے ساتھ عید کی تیاریوں میں مصروف ہیں تاہم ہمیں یہ دیکھنا چائیے کہ بلوچستان میں بہت ساری ایسی مائیں اور بہنیں ہیں جو ہر عید پر اپنے پیاروں کے انتظار میں ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’بہت ساری خواتین کے شوہر لاپتہ ہونے کے باعث ان کو معلوم نہیں کہ وہ بیوہ ہیں یا شادی شدہ ہے وہ ہر عید اپنے شوہروں کے انتظار میں گزارتی ہیں۔
سردار اختر مینگل نے اپنے ویڈیو بیان میں بلوچستان بھر کے لوگوں سے اپیل کی وہ اس لانگ مارچ میں شرکت کرکے یہ ثابت کریں کہ بلوچستان کی خواتین لاوارث نہیں۔
انھوں نے کہا کہ جن خواتین کو گرفتار کیا گیا ہے ان کے خلاف مقدمات کی واپسی اور ان کی رہائی تک کوئٹہ میں دھرنا دیا جائے گا جس کا اعلان لانگ مارچ کے کوئٹہ پہنچنے کے بعد کیا جائے گا۔
حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند نے بی این پی کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ احتجاج کرنا بلوچستان نیشنل پارٹی کا آئینی و قانونی حق ہے تاہم اس وقت قومی شاہراہوں پر دفعہ 144 نافذ ہے، لہٰذا بی این پی کو احتجاج کے لیے متعلقہ انتظامیہ سے اجازت لینی چاہیے۔
سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر ترجمان بلوچستان حکومت نے کہا کہ بی این پی کی ہڑتال کی کال پر عوام کا ردعمل نوشتہ دیوار ہے۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ خواتین خودکش حملہ آوروں کے معاملے پر عزت و غیرت کے تقاضے کیوں خاموش ہوتے ہیں اس کے برعکس جب ریاست مخالف عناصر کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے تو عزت و غیرت کے نام پر مفاداتی ایجنڈے کو زندہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ ریاست ہر فرد کی عزت نفس کی محافظ ہے شدت پسندی کی حوصلہ افزائی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی اور ریاست اپنی رٹ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ خواتین کو ڈھال بنا کر ریاست کو چیلنج کرنے والوں کو جواب دینا ہوگا۔