کوئٹہ و گوادر سے بلوچی شاعر وطلبا سمیت متعدد افراد فورسز ہاتھوں جبراً لاپتہ

ایڈمن
ایڈمن
4 Min Read

بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ ہنوز فورسز کا نہتے افراد کے خلاف کریک ڈائون جاری ہے ۔

آمدہ اطلاعات کے مطابق کوئٹہ میں پولیس و خفیہ ادارے گھر گھر تلاشی لیکر شہریوں کو گرفتاری کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کررہے ہیں۔

کوئٹہ شہر میں تاحال پولیس و فورسز کی بھاری تعداد تعینات ہے جبکہ مختلف علاقوں میں سرچ آپریشن کرتے ہوئے متعدد افراد کو حراست میں لیکر تھانے سمیت نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔

پولیس نے گذشتہ شب کوئٹہ بروری روڈ بلوچ کالونی میں گھروں پر چھاپہ مارتے ہوئے سرچ آپریشن کا آغاز کیا جبکہ گھر گھر تلاشی کے دوران متعدد افراد کو حراست میں لیکر اپنے ہمراہ لے گئے ہیں۔

دو افراد کی شناخت خلیل نیچاری اور اس کے بیٹے نوید نیچاری کے نام سے ہوگئی ہے جبکہ دیگر کی اب تک شناخت نہیں ہوسکی ہے۔

فیملی ذرائع کا کہنا ہے کہ خفیہ اداروں نے رات 1 بجے جوائنٹ روڈ کوئٹہ سے خلیل احمد بلوچ اور ان کے بیٹے نوید احمد کو ان کے گھر پہ چھاپہ مار کر جبری لاپتہ کردیا۔

ان کا کہنا ہے کہ نوید بلوچ صوابی میڈیکل یونیورسٹی میں MBBS کے طالب علم ہیں اور اس وقت چھٹیاں گزارنے گھر آئے ہوئے تھے۔

ادھر کوئٹہ مغربی بائی پاس پر بھی فورسز کی بھاری نقل و حرکت دیکھی جارہی ہے اور علاقے سے تین نوجوانوں کی جبری گمشدگی کی اطلاعات ملی ہیں۔

کوئٹہ سے ذرائع کے مطابق ان گرفتاریوں کے علاوہ دھرنوں کے دوران اور پولیس سرچ آپریشن میں گرفتار اس وقت 35 کے قریب افراد کو پولیس نے بروری تھانے میں منتقل کرکے بند کردیا ہے جبکہ ابھی تک کسی کو ان سے ملنے کی اجازت نہیں دی جارہی۔

واضح رہے کہ کوئٹہ میں حالات کشیدہ ہیں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاجی مظاہروں کے چلتے آج پھر کوئٹہ پولیس نے مختلف علاقوں کو گھیرے لیکر گرفتاریاں کئے جبکہ فائرنگ سے مزید متعدد مظاہرین زخمی ہوئے ہیں۔

مزید برآں آج ہی پولیس اور سول کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے کوئٹہ کلی قمبرانی سے دو کمسن بہنوں کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔

بی وائی سی کے مطابق اس وقت کوئٹہ سے سو سے زائد کارکنان اور عام شہریوں کو حکومت احکامات پر پولیس نے گرفتار کرلیا ہے جبکہ چالیس کے قریب مظاہرین پولیس تشدد اور فائرنگ سے زخمی ہوئے جبکہ فورسز کا کریک ڈاؤن تاحال جاری ہے۔

تاہم بی وائی سی نے فورسز کریک ڈاؤن کے باوجود کل سے بلوچستان بھر میں پھر سے احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔

اسی طرح گوادر میں فورسز نے بلوچی زبان کے شاعر اور طالب علم نبیل نود کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیاہے۔

خاندانی ذرائع کے مطابق، نبیل نود بلوچ کو گزشتہ روز دو بیست پنجاہ سے فورسز نے گرفتار کیا، جس کے بعد سے ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔

اہلِ خانہ اور مقامی افراد نے ان کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ جبری گمشدگیوں کے خلاف سرگرم تنظیموں نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے احتجاج کا عندیہ دیا ہے۔

Share This Article