بلوچ مسئلہ: مختصر جائزہ | ذوالفقار علی زلفی

ایڈمن
ایڈمن
7 Min Read

بلوچ قومی تحریک آج 105 سال کی ہوچکی ہے ـ جنوبی ایشیا میں چلنے والی تمام قومی تحریکات جیسے تمل ناڈو (سری لنکا) ، ناگالینڈ ، منی پور ، کشمیر، آسام، پنجاب (بھارت) وغیرہ کی نسبت یہ سب سے پرانی تحریک ہے ـ

نواب یوسف عزیز مگسی، میر عبدالعزیز کرد اور بابو عبدالکریم شورش و ان کے ساتھیوں نے 1920 کو اس تحریک کی بنیاد رکھی ـ مارکسی لیننی نظریے کو رہنما ماننے والے ان بنیاد گزاروں نے انگریز نوآبادکار کے خلاف پرامن تحریک چلا کر آزاد بلوچ ریاست کا خاکہ پیش کیا ـ پس ماندہ رسل و رسائل، انگریز کی سدھائی ہوئی طاقت ور بورژوازی، خان آف قلات کی عاقبت نااندیشانہ پالیسیوں اور مسلم لیگ و انگریز گٹھ جوڑ کے باعث بلوچ ریاست کا قیام ممکن نہ ہوسکا ـ

انگریز کی جگہ پنجابی نوآبادکار نے لے لی ـ انگریز نے جس بلوچ بورژوازی کو سدھایا ہوا تھا اس نے اپنے طبقاتی مفادات کے تحفظ کے لئے پنجابی کو اپنا آقا مان لیا ـ پنجابی نوآبادکار کے خلاف دو ردعمل ابھرے ـ ایک ، ریاست قلات کے پارلیمنٹرینز تھے جن میں اہم ترین نام میر غوث بخش بزنجو کا تھا ـ بزنجو اور ان کے ہم نواؤں نے نوزائیدہ پاکستان میں شمولیت سے انکار کرکے آزاد بلوچ ریاست کو برقرار رکھنے کی کوششیں کی ـ دوسرا ردعمل پرنس عبدالکریم کا تھا جنہوں نے 1948 کو پنجابی کے فوجی ایکشن کے خلاف مسلح بغاوت کا راستہ چُنا ـ

بزنجو کی پرامن تحریک مگسی تحریک کا تسلسل تھا جب کہ پرنس عبدالکریم کی مسلح جدوجہد اس تحریک میں تشدد کی پہلی آمیزش ـ عبدالکریم وہ پہلی شخصیت بنے جنہوں نے قومی آزادی کے لئے مسلح مزاحمت کا راستہ اختیار کیا ـ میر غوث بخش بزنجو اور عبدالکریم دونوں اپنے اپنے مقاصد میں ناکام رہے ـ میر غوث بخش بزنجو نے ناکامی کے بعد پنجابی سے مصالحت اور نوآبادیاتی نظام میں رہ کر بہتری کی راہیں تلاش کرنے کی وکالت شروع کردی ـ ون یونٹ پالیسی نے تاہم بزنجو کی مصالحت پر مبنی سیاسی فلسفے کو شدید دھچکا پہنچایا ـ بابو نوروز خان وہ دوسری شخصیت بنے جنہوں نے مسلح مزاحمت کا راستہ اختیار کیا ـ

بابو نوروز خان بھی مگر عبدالکریم کی مانند تحریک کو پھیلانے میں کامیاب نہ ہوسکے ـ بزنجو نے ایک دفعہ پھر مسلح مزاحمت کو فضول مشق قرار دے کر پرامن سیاسی تحریک کے ذریعے نوآبادیاتی نظام میں رہ کر راستہ تلاش کرنے کا پروپیگنڈہ شروع کردیا ـ بزنجو اس بار کسی حد تک کامیاب رہے ـ انہوں نے ایک بڑی سیاسی پارلیمانی تحریک کھڑی کردی ـ بزنجو کی یہ کوشش اس وقت دریا بُرد ہوگئی جب پنجابی نوآبادکار نے بلوچستان کے قصائی بھٹو کے ذریعے پورے سیاسی نظام کا تیاپانچہ کرکے بلوچستان پر آتش و آہن برسائے ـ جہلاوان اور کوہستان مری کے عوام نے مسلح مزاحمت شروع کردی ـ بزنجو کی مصالحت پر مبنی پالیسی کی ناکامی پھر ثابت ہوگئی ـ

پنجابی فوج کے سربراہ جنرل ضیاالحق نے بغضِ بھٹو کے تحت فوج کشی بند کردی دوسری جانب وسیع عوامی حمایت سے محروم مسلح مزاحمت کاروں نے بھی مسلح جدوجہد کو کسی بہتر وقت تک کے لئے ملتوی کر دیا ـ

نواب خیر بخش مری جو بزنجو کاروان کے اہم رکن تھے نے فکرِ بزنجو سے خود کو علیحدہ کرکے مسلح مزاحمت اور بلوچ ریاست کی کامل بحالی کو ہی مسئلے کا درست اور منطقی حل قرار دیا ـ نواب خیر بخش مری نے ماضی کی مسلح بغاوتوں کی ناکامیوں کا تجزیہ کیا ـ غفلتوں اور کوتاہیوں پر کھل کر بحث مباحثہ کرنے کی دعوت دی ـ نواب مری نے مسلح جدوجہد برائے قومی آزادی کی پہلی کوشش بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے چیئرمین فدا بلوچ کے ذریعے کرنے کی کوشش کی ـ 1988 کو فدا بلوچ کے پراسرار قتل نے مسلح جدوجہد کو شروع ہونے سے پہلے ہی ناکام بنا دیا ـ

فدا بلوچ کی شہادت اور سوویت یونین کی شکست ریخت نے مسلح جدوجہد کو بیک فٹ پر ڈال دیا ـ فکر بزنجو ڈاکٹر مالک بلوچ اور سردار اختر مینگل کی شکل میں دوبارہ ابھر کر سامنے آئی ـ نوآبادیاتی نظام کو ہی حتمی مان لیا گیا ـ قومی آزادی کی باتیں دور کی کوڑی قرار دی گئیں ـ

نواب خیر بخش مری مگر اپنے فکر و فلسفے پر ثابت قدم رہے ـ 2004 کو ایک دفعہ پھر مسلح جدوجہد کا آغاز کیا گیا ـ ایک نئی تبدیلی یہ آئی کہ اس بار نہ صرف بلوچستان کے طاقت ور اور امیر ترین سردار ، نواب اکبر خان بگٹی تحریک کا حصہ بنے بلکہ مکران کا خطہ بھی شامل ہوگیا ـ

نوآبادکار نے قبائلی نظام کو توڑنے کی پالیسی اختیار کرکے بورژوازی اور مافیا کو مضبوط کرنا شروع کردیا ـ غیر مسلح آزادی پسندوں کا بے رحمی سے قتلِ عام کیا گیا ـ جبری گم شدگی اور مسخ لاشوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوا جس نے فکرِ بزنجو اور اس سے وابستہ مصالحت پسند سیاسی قوتوں کو دیوار سے لگا دیا ـ مسلح جدوجہد کی شدت اور عوامی حمایت بڑھتی رہی ـ

اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ معاملہ اس قدر پیچیدہ اور گنجلک ہوچکا ہے کہ اس کا کوئی مستقل حل نظر نہیں آرہا ہے ـ آثار بتا رہے ہیں کہ دو طرفہ جنگ اب زیادہ بے رحم اور بھیانک ہوگی ـ نتیجہ کیا نکلے گا، زندہ رہے تو دیکھ لیں گے ـ

٭٭٭

Share This Article