جبری گمشدہ طلبہ رہنماء شبیر بلوچ کی ہمشیرہ انسانی حقوق کی کارکن سیما بلوچ نے ایک ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ تین دنوں تک یاسر حمید و جنید حمید سمیت دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بھوانی حب کے مقام پر دھرنے پر بیٹھے تھے جہاں سے انہیں دیگر خواتین مظاہرین کے ہمراہ گرفتار کرکے تھانہ لے جایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کھینچا تانی میں انکے ہاتھ پاؤں زخمی ہوئے، تھانہ کے اندر انہیں شدید ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
سیما بلوچ نے بتایا کہ پولیس اہلکار ان پر دباؤ ڈالتے رہے کہ وہ اپنا دھرنا ختم کردیں وگرنہ انہیں لمبے عرصے کیلئے قید میں رکھا جائیگا۔ جس پر سیما سمیت دیگر گرفتار اسیران نے جواب دیا کہ وہ اپنے بھائیوں سے زیادہ اچھے نہیں ہیں، اگر انکے بھائی مشقت کی قید گزار رہے ہیں تو اس کے لئے وہ بھی تیار ہیں۔
انہوں نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اٹھارہ گھنٹوں کی قید میں جس کیفیت سے وہ گزرے اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سالوں کی قید میں انکے پیارے کیسی مشکلات جھیل رہے ہونگے۔
آخر میں انہوں نے مزاحمت کا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ بلوچ قوم کے پاس مزاحمت کے سوائے کوئی دوسرا چارہ نہیں ہے۔