عورتوں کے قومی دن پر تربت میں تقریب

ایڈمن
ایڈمن
5 Min Read

بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق ٹاسک فورس مکران کی جانب سے عورتوں کے قومی دن پر تربت پریس کلب کے ہال میں پروگرام منعقد کیا گیا جس میں خواتین کی ایک بڑی تعداد شریک تھی جب کہ ایچ آر سی پی کے کارکنان بھی اجلاس میں موجود تھے۔

اجلاس میں پروفیسر غنی پرواز نے عورتوں کے قومی دن پر روشنی ڈالی اور اس کے بارے میں تاریخی حوالوں سے بات کی۔

انہوں نے کہا کہ ضیا رجیم سے قبل پاکستان میں عورتوں کا قومی دن منایا جاتا رہا جب حدود آرڈیننس پاکستان میں 10 فروری 1979 کو نافذ کیا گیا، جو اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کی اسلامائزیشن پالیسی کا حصہ تھا یہ آرڈیننس اسلامی سزاؤں پر مبنی تھا اور اسے پاکستان کے قانونی نظام میں شامل کرنے کا مقصد شریعت کے اصولوں کے مطابق جرائم اور ان کی سزاؤں کا تعین کرنا تھا۔

حدود آرڈیننس کے تحت مختلف قوانین بنائے گئے جن میں زنا، چوری، شراب نوشی اور قذف (جھوٹا الزام) جیسے جرائم کے لیے سخت سزائیں تجویز کی گئیں۔ اس قانون کے تحت زنا بالرضا اور زنا بالجبر (ریپ) میں فرق کرنے کے لیے سخت شہادت کی شرط رکھی گئی جس کے مطابق چار مسلمان مرد گواہوں کی ضرورت ہوتی تھی یہ شرط خاص طور پر خواتین کے لیے بڑی مشکلات کا باعث بنی۔

انہوں نے کہا کہ حدود آرڈیننس نفاذ کے بعد سخت تنقید کی زد میں آئی پروگریسو تنظیموں نے اس کے خلاف احتجاج کیا حدود آرڈیننس کے سب سے بڑے ناقدین میں خواتین کے حقوق کی تنظیمیں شامل تھیں، خاص طور پر وومن ایکشن فورم (WAF) اور عورت فاؤنڈیشن جیسی تنظیموں نے اس کے خلاف آواز بلند کی۔ ان کا مؤقف تھا کہ یہ قانون خواتین کے ساتھ زیادتی کرتا ہے اور ریپ کے مقدمات میں متاثرہ خاتون کے لیے انصاف حاصل کرنا تقریباً ناممکن بنا دیتا ہے۔

پروفیسر غنی پرواز نے کہا کہ 1980 اور 1990 کی دہائی میں حدود آرڈیننس کے خلاف سخت احتجاج کیا گیا اور1980 کی دہائی میں خواتین کی تنظیموں نے لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں حدود آرڈیننس کے خلاف مظاہرے کیے جنہیں حکومت کی جانب سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ 1983 میں لاہور میں ایک مظاہرے کے دوران پولیس نے خواتین کارکنوں پر لاٹھی چارج کیا جس سے یہ مسئلہ مزید عالمی سطح پر اجاگر ہوا۔

انہوں نے کہاکہ 2006 میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے وومن پروٹیکشن ایکٹ کے ذریعے حدود آرڈیننس میں ترامیم کیں۔ اس ایکٹ کے تحت ریپ کے مقدمات کو حدود قوانین کے بجائے تعزیراتِ پاکستان کے تحت درج کرنے کی اجازت دی گئی جس سے چار گواہوں کی شرط ختم ہو گئی۔ تاہم، اسلامی جماعتوں نے ان ترامیم کی سخت مخالفت کی، جبکہ خواتین کے حقوق کے کارکنوں نے اسے جزوی کامیابی قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ حدود آرڈیننس پاکستان میں ایک متنازعہ قانون رہا ہے، جس پر آج بھی بحث جاری ہے۔ یہ قانون اسلامائزیشن کے نام پر نافذ کیا گیا تھا، لیکن اس کے خلاف انسانی حقوق کے کارکنوں، خواتین کی تنظیموں اور عالمی برادری نے شدید احتجاج کیا۔ 2006 میں ہونے والی ترامیم نے کچھ مسائل حل کیے، لیکن کئی حلقے اب بھی اسے مکمل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

پروگرام میں مختلف شعبہ فکر سے وابستہ خواتین میں شامل ڈاکٹر سمی پرواز، ڈاکٹر عظمی قادری، فضیلہ بلوچ، شگراللہ یوسف، بشیر دانش، الطاف بلیدی،مقبول ناصر و دیگر نے بھی اظہارخیال کیا جب کہ اس دوران بلوچستان میں خواتین کے چیدہ مسائل، جبری گمشدگی، دوران حراست قتل، بلوچ اسکالر کے قتل اور ان پر قاتلانہ حملہ سمیت مختلف قرار دادیں پیش اور منظور کی گئیں۔

قرار داد ایچ آر سی پی کے ممبر وقار قیوم نے پیش کیں۔

Share This Article