شمالی شام میں پیر کے روز ایک کار بم دھماکے میں 20 افراد ہلاک ہو گئے ۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس حملے میں ملوث افراد کو کڑی سزا دی جائے گی۔
یہ وہ علاقہ ہے جہاں کرد قیادت میں فورسز اور ترکیہ کے حمایت یافتہ عسکریت پسندوں کے درمیان کئی ہفتوں سے جھڑپیں جاری ہیں۔
چند روز کے دوران منبج نامی شہر میں ہونے والا یہ دوسرا حملہ ہے۔ یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب شام کے نئے حکمرانوں اور انکی اتحادی ، ملک کی اقلیتی کرد برادری کے زیر قیادت فعال "سیریئن ڈیموکریٹک فورسز ” کے درمیان اس اتحاد کے مستقبل کے حوالے سے بات چیت ہو رہی ہے۔
واضح رہے کہ باغی گروپوں کے ارکان پر مشتمل شام کی نئی حکومت کو ترکیہ کے قریب سمجھا جاتا ہے۔
شام کے ایوان صدر کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک دہشت گرد حملے میں منبج کے شہریوں کو نشانہ بنایا گیا جس میں 20 افراد ہلاک ہو گئے۔
فوری طور پر کسی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ نہیں کیا۔
شامی ڈیموکریٹک فورسز نے بھی اس حملے کی مذمت کی ہے۔
صدارتی بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس حملے میں کس کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس جرم میں ملوث افراد سخت ترین سزا سے نہیں بچ سکتے۔
ایس ڈی ایف کی کوششوں کے باوجود، جسے امریکہ کی حمایت حاصل ہے، منبج کے علاقے میں لڑائی بھڑک اٹھی ہے۔
جب باغی گروپوں کے ایک اتحاد نے دمشق میں بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹا تھا تو ترکیہ کے حمایت یافتہ عسکری دھڑے اسٹریٹجک اہمیت کے علاقے تل رفعت اور منبج کے کئی حصوں پر قابض ہو گئے تھے۔
شامی ڈیموکریٹک فورسز کے رہنما مظلوم عابدی نے ایکس پلیٹ فارم پر اپنی ایک پوسٹ میں پیر کے روز ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ذمہ داروں کو جوابدہ ٹھہرانا چاہیے۔
اس سے قبل امدادی کارکنوں نے بتایا تھا کہ ہلاک ہونے والوں میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔
یہ حملہ ایک مضافاتی علاقے میں ہوا جس کا نشانہ زرعی کارکن تھے۔
ہفتے کے روز شام میں جنگ کی صورت حال پر نظر رکھنے والی تنظیم "سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس” کے کہا تھا کہ منبج میں ایک کار بم دھماکے میں ترکیہ کے حامی عسکریت پسندوں سمیت کم از کم 9 افراد ہلاک ہو گئے۔
شام کے صدر محمد الشرع نے حال ہی میں سعودی عرب کا دورہ کیا ہے جہاں انہوں نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی، جس کا مقصد جنگ سے تباہ حال شام کی تعمیر نو کے لیے امیر خلیجی ممالک سے فنڈز حاصل کرنا تھا۔
اب وہ منگل کو ترکیہ کے دورے پر جانے والے ہیں جہاں وہ صدر رجب طیب ایردوان سے ملاقات کریں گے۔جس کا مقصد معاشی بحالی، پائیدار استحکام اور سیکیورٹی کے لیے مشترکہ اقدامات پر بات چیت کرنا ہے۔