بلوچ یکجہتی کمیٹی بلاشبہ اس وقت سب سے بڑی عوامی قوت اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ مقبول ترین رہنما ہیں ـ بلوچ تاریخ میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ پہلی سیاسی قائد ہیں جو مقبولیت کی اس معراج پر پہنچی ہیں ـ یہ سعادت نواب اکبر خان بگٹی، سردار عطا اللہ مینگل، بابا خیر بخش مری ، غلام محمد بلوچ اور میر غوث بخش بزنجو جیسے قد آور رہنماؤں کو بھی نصیب نہ ہوا ـ ایک سخت پدرسری قبائلی سماج میں کسی نوجوان خاتون کا اس حد تک عوامی قبولیت پانا بلوچ سیاسی تاریخ میں انوکھا واقعہ ہے ـ اس واقعے کے اثرات نسلوں پر مرتب ہوں گے ـ۔
عوامی قوت اور شہرت جہاں مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں وہاں اس کے نشے میں مقبول رہنما ناقابلِ تلافی سیاسی غلطیوں کے مرتکب بھی ہوجاتے ہیں ـ بڑی جماعتوں اور بڑے لیڈروں کی غلطیاں بھی بڑی ہوتی ہیں جن کی سزا نسلوں کو بھگتنی پڑتی ہیں ـ عوامی طاقت کا نشہ ہٹلر پیدا کرتا ہے جب کہ اس کا درست استعمال لینن کو جنم دیتا ہے ـ۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما بشمول ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ بڑی حد تک نشے میں مبتلا دکھائی دے رہے ہیں ـ اگر طاقت کا یہ نشہ بڑھتا رہا تو اس کے نقصانات بھی بے پناہ ہوں گے جس سے بچنا چاہیے ـ۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی بنیادی طور پر سانحہِ ڈَنّک کی پیدوار ہے جسے اس وقت برمش یکجہتی کمیٹی کا نام دیا گیا، حیات بلوچ کے سفاکانہ قتل کے بعد یہ برمش سے بلوچ میں تبدیل ہوئی پھر بانک کریمہ بلوچ کے قتل، ان کی تدفین میں رکاوٹ اور پھر اسلام آباد لانگ مارچ کے مراحل طے کرتے یہ موجودہ شکل میں منقلب ہوئی ـ کمیٹی کی اٹھان ایک سول رائٹس موومنٹ کے طور پر ہوئی ـ اوائل میں کمیٹی نے پاکستانی آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر بلوچ شہری حقوق کی بازیابی و تحفظ کے گرد تحریک چلائی ـ اسی نعرے پر انہیں مقبولیت بھی ملی ـ مگر ایسا لگتا ہے اب کمیٹی کی ترجیحات کچھ اور ہیں ـ ترجیحات کا یہی بدلاؤ ایک مخدوش مستقبل کا پتہ دے رہا ہے ـ ۔
گوادر راجی مُچّی کے دوران کمیٹی نے بلوچستان میں چین کے سامراجی منصوبوں کی مخالفت کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ مغربی و مشرقی بلوچستان کے درمیان حائل بین الاقوامی سرحدوں کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ـ یہ دونوں معاملات سول رائٹس موومنٹ کے دائرے سے باہر ہیں ـ۔
چینی منصوبوں کے خلاف ایک مسلح و غیر مسلح آزادی پسند تحریک موجود ہے جو پاکستانی آئین و قانون کو تسلیم نہیں کرتی ـ یہ تحریک ایک کھلی جنگ کی مانند ہے اس لئے اس تحریک سے وابستہ بیشتر رہنما و جہدکار ہر ممکن حد تک خود کو پاکستانی فورسز سے بچا کر رکھنے کی کوشش کرتے اور فورسز سمیت پاکستانی ریاست پر مہلک حملے بھی کرتے ہیں۔ ـ بلوچ یکجہتی کمیٹی کوئی انڈرگراؤنڈ تنظیم نہیں ہے ایسے میں مسلح و غیر مسلح آزادی پسند تنظیموں کے موقف کو قبول کرنا اور اسے آگے بڑھانا ایک ایسے وحشت ناک کریک ڈاؤن کو دعوت دینا ہے جس کا سامنا چند سال قبل بلوچ نیشنل موومنٹ اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے رہنماؤں و کارکنان کو کرنا پڑا ـ۔
قومی مقاصد کے حصول کے لئے جان دینا اہم نہیں ہے بلکہ زندہ رہ کر اس کے حصول کے لئے مسلسل جدوجہد کرنا ضروری ہے ـ اس کے لئے ضروری ہے کہ تنظیم و اس کے رہنما حتیٰ الامکان خود کو آگ سے بچائیں رکھیں ـ، کمیٹی کا مینڈیٹ سول حقوق کی بازیابی و تحفظ ہے ، وہ بجائے اس کو مرکز بنانے کے بے خطر آگ میں کود پڑنے کی حماقت کر رہی ہے ـ اس طفلانہ جذباتیت کا حاصل وصول محض تباہی ہے ـ ۔
اسی طرح بلوچ یکجہتی کمیٹی کو بین الاقوامی سرحدوں کی تبدیلی جیسے سنگین معاملات سے بھی کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے، ـ سرحدوں کی تبدیلی کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے جسے کھلونا سمجھ کر کھیلا جائے ،ـ مغربی بلوچستان کی طرزِ معاشرت، سیاست، سماج، قومی مزاج اور وہاں کے تضادات مشرقی بلوچستان سے یک سر مختلف بلکہ بعض معاملات میں متضاد ہیں ۔ـ مشرقی بلوچستان کی ایک ایسی تنظیم جو پاکستانی آئین کے دائرے میں رہ کر سول موومنٹ کی تحریک چلا رہی ہے، اسے ایسے بچگانہ مطالبات و نعروں سے اجتناب برتنا چاہیے، ـ کیا مشرقی بلوچستان جس کے عوام نے کمیٹی کو اپنا رہنما چُنا ہے اس کے تمام مسائل حل ہوچکے ہیں جو اب کمیٹی زاھدان و چابہار کے مسائل حل کرنے نکل پڑی ہے؟ ـ۔
صبغت اللہ شاہ جی بالخصوص اس خطرناک تصور کو آگے بڑھا رہے ہیں ـ، شاہ جی ایک تجربہ کار اور سینئر سیاسی رہنما ہیں ـ وہ نہ صرف اس یوٹوپیا پر خیالی محل تعمیر کر رہے ہیں بلکہ بساں اوقات وہ مخالف خواتین پر سیکسٹ فقرے بھی اچھالتے ہیں ـ ۔
سیاست دستیاب ذرائع کو استعمال کرکے حالات کو اپنے حق میں موافق کرنے کی کوشش کی سائنس ہے ـ ۔سیاست ایک سنجیدہ مشق ہے جس کی بنیادیں ٹھوس مادی حالات میں پیوست ہیں ـ ۔مادی حالات کی بجائے تصورات پر حکمت عملی ترتیب دینا ایسے ہے جیسے ساحل پر لکیریں کھینچنا ـ بلوچ یکجہتی کمیٹی اپنے مینڈیٹ سے تجاوز اور ریت کے گھروندے بنانے کی روش اختیار کرکے اپنے پیچھے کھڑی قوم کو مزید تباہ کرنے کے راستے پر گامزن ہے۔
ـ
بلوچ اس وقت پنجابی نوآبادکار سے خوف ناک جنگ لڑ رہے ہیں ـ اس جنگ میں بلوچ کا سب کچھ داؤ پر لگا ہے ـ یکجہتی کمیٹی بجائے اس کے کہ اس جنگ میں بلوچ کا کم سے کم نقصان ہو اسے مزید جنگوں میں الجھانے کی احمقانہ بلکہ مجرمانہ کوشش کر رہی ہے ـ ان کوششوں میں سے ایک ہمسایہ اقوام سے الجھنا ہے ـ ۔
پاکستان نامی اقوام کے قید خانے میں مظلوم ترین قوم سرائیکی ہے۔ ـ سرائیکی ایک علیحدہ قومی شناخت نہیں رکھتی ،ـ مستقبل قریب میں بھی اسے یہ شناخت ملنے کی توقع نہیں ہے، ـ اسے جبری طور پر پنجابی شناخت کا ٹھپہ لگایا گیا ہے۔ ـ اس کی زبان کو دیدہ دلیری کے ساتھ پنجابی کا لہجہ قرار دیا جاتا ہے۔ ـ سرائیکی وسیب ترقی یافتہ پنجاب کا پس ماندہ ترین خطہ ہے ،ـ ایک جانب وہ پنجابی نوآبادکار کے دیے زخم چاٹ رہا ہے اور دوسری جانب بلوچ مسلح تنظیمیں بھی پنجابی کے نام پر غریب سرائیکی کے گلے کاٹ رہی ہیں ـ۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اپنی عوامی طاقت کے ذریعے مسلح تنظیموں کو اس ناخوش گوار عمل سے باز رکھنے کی کوشش کرتی اور بلوچ ہمسایہ سرائیکی کے ساتھ بہتر تعلقات کی راہیں تلاش کرتی ـ اس کے بجائے کمیٹی کے جذباتی کارکنان ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کی بلوچستان حوالگی کا نعرہ دہرا کر سرائیکی کو پنجابی کا اتحادی بنانے کی جانب دھکیل رہے ہیں ـ۔
ڈیرہ غازی خان اور راجن پور پر بلوچ کا تاریخی کلیم ہے ـ۔ ان خطوں کے عوام کی بھی یہی خواہش و تمنا ہے کہ وہ بلوچستان کا حصہ بن جائیں ـ مگر کیا بلوچ اس پوزیشن میں ہیں کہ ان خطوں کو بلوچستان میں ضم کریں؟ ـ یقیناً نہیں ـ پھر ایسے میں اپنے مظلوم ترین ہمسائے اور ایک فطری اتحادی سے لڑنے کا حاصل؟ ـ بلوچ یکجہتی کمیٹی بھی ان خطوں کو بلوچستان میں شامل کرنے کی قوت نہیں رکھتی اور نہ ہی پاکستان کے موجودہ سیاسی نظام میں ایسا ہونا ممکن ہے ـ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ معاملہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دائرے میں بھی نہیں آتا ـ۔
ہر قسم کے شہری حقوق سے محروم بلوچوں کی سول تحریک رفتہ رفتہ اپنے اصلی مقاصد سے ہٹ رہی ہے ـ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے ـ۔
کراچی پر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا بیان واضح طور پر غیر ارادی تھا جسے سندھ کے بعض سیاسی لحاظ سے یتیم قوم پرستوں و پیٹی بورژوا دانش وروں نے ایسے پیش کیا جیسے بلوچ مسلح فوج کراچی فتح کرنے نکل پڑی ہے۔ ـ کراچی کائنات میں بلوچوں کا سب سے بڑا شہر ہے ،ـ بلوچ ادبی، سیاسی و سماجی تحریکوں میں کراچی نے ہمیشہ قائدانہ کردار ادا کیا ہے ـ مگر اس سے یہ ٹھوس حقیقت نہیں بدلتی کہ کراچی سندھ کا حصہ ہے ـ بلوچ سیاست کا کبھی بھی کراچی پر کوئی کلیم نہیں رہا ـ۔
سندھ اور بلوچستان کے درمیان نہایت ہی گہرے تاریخی و ثقافتی رشتے ہیں، ـ بلوچ کلاسیک داستانوں میں سندھ کو ہمیشہ ایک پناہ گاہ اور دوست خطے کی صورت یاد کیا گیا ہے ـ۔ مشرقی بلوچی لہجے اور براہوئی زبان پر سندھی کے اثرات واضح نظر آتے ہیں ـ۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے غیر ارادی بیان اور سندھ کے سیاسی یتیموں کی چیخ و پکار کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی کے بعض اراکین نے کراچی ایک طرف جیکب آباد اور کشمور کو بھی بلوچستان قرار دے دیا ـ۔ یہ کیا بچگانہ سیاست ہے؟ ـ کیا بلوچ جبری گم شدگان بازیاب ہوگئے؟ کیا جبری گم شدگی، مسخ لاشوں، گھروں کی آتش زدگی، ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ ختم ہوگیا؟ کیا بلوچ ایک پرمسرت زندگی گزارنے کا حق پاچکے؟ ہر سوال کا جواب یقینی طور پر نہ میں ہے ـ پھر ان حالات میں اپنے ایک ایسے ہمسائے کے ساتھ سینگ پھنسانا چی معنی دارد جس کے ساتھ بلوچ کے گہرے ثقافتی و تاریخی رشتے ہیں؟ ـ سندھ کے سیاسی یتیموں، پیٹی بورژوا دانش وروں اور سوشل میڈیائی نسل پرستوں کی پچ پر کھیلنا کسی بھی لحاظ سے بلوچ مفاد میں نہیں ہے ـ۔
بلوچستان کی اندرونی سیاست پر بھی یکجہتی کمیٹی آمرانہ رویہ اختیار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ـ ڈاکٹر صبیحہ بلوچ عوامی طاقت کے نشے میں چور ہوکر جلاوطنی کے عذاب میں مبتلا سیاسی قیادت و جہدکاروں کو "پلینڈ” جیسے تحقیر آمیز نام سے مخاطب کرتی اور انہیں گراؤنڈ پالیٹکس سے دور رہنے کا حکم دیتی ہیں۔ ـ جلاوطن سیاسی قیادت اور کارکنان سیر سپاٹوں پر نہیں گئے جو وہ بلوچستان کی اندرونی سیاست سے لاتعلق ہوجائیں اور میدان کو تصوریت پسند افلاطونوں کے حوالے کریں ـ ۔جلاوطن قیادت و جہدکار اسٹیک ہولڈرز ہیں ـ ان کے تلخ تجربات سے استفادہ کرنے کی بجائے کسی ڈکٹیٹر کی طرح انہیں دھتکارا جا رہا ہے۔ ـ ایسا کرنے کی "جرات” تو سرفراز بگٹی اور ڈاکٹر مالک بلوچ جیسے موقع پرستوں نے بھی کبھی نہیں کیا۔ ـ
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ وہ کہاں سے شروع کرکے کہاں جا رہے ہیں ـ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ عوامی قوت کے بل پر ہٹلر بننے جا رہی ہیں یا لینن بننے کے راستے پر چل رہی ہیں ـ یاد رہے؛ لینن انقلاب لاتا ہے جب کہ ہٹلر اپنی قوم کی تباہی کا سبب بنتا ہے ـ۔
٭٭٭
نوٹ: واجہ ذوالفقارعلی زلفی ایک سیاسی کارکن ، صحافی،مصنف و تجزیہ کار ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر فلم و بلوچ سیاست سمیت مختلف موضاعت پر اکثرو بیشتر اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ مذکورہ تحریر میں خیالات راقم کے اپنے ہیں ، ادراے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ادارہ سنگر