میر محمد علی تالپور کا تعلق تالپور قبیلے سے ہے جو سندھ کے سب سے مشہور اور بااثر بلوچ قبیلہ ہے۔ تالپور قبیلے نے 1783 ء سے 17 فروری 1843 ء تک سندھ پر حکومت کی۔انگریزوں نے 17 فروری ‘1843 ء کو "جنگ میانی” کے بعد ” سندھ کو فتح کیا۔برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کی بمبئی فوجوں نے چارلس نیپئر کے قیادت میں سندھ کی تالپور امروں کی بلوچ فوج کے تحت میر ناصر خان تالپور کی قیادت میں شدید لڑائی لڑی۔
میر محمد علی تالپور کے والد مرحوم میر علی تالپور اور مرحوم میر رسول بخش تالپور (میر محمد علی تالپور کے چچا) بااثر سیاستدان تھے۔ دونوں بھائی بلوچ قوم پرست، عاجز انسان، ایماندار اور بااثر سیاستدانوں کے نام سے جانے جاتے تھے۔
میر محمد علی تالپور نے اپنی جوانی میں بلوچ آزادی کی جدوجہد میں شمولیت اختیار کی۔انہوں نے 1970 ء کی دہائی میں بلوچ قومی جدوجہد ء ِآزادی میں شمولیت اختیار کی۔وہ دوسرے بلوچ حریت پسندوں اور لوگوں کے ساتھ مل کر افغانستان ہجرت کر کے ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کے زوال تک وہاں موجود رہے۔ بلوچ آزادی پسند قوم پرستوں کی جانب سے وسیع پیمانے پر میر صاحب کا بلوچ مقصد کے لئے ایک پرعزم ساتھی کے طور پر احترام کیا جاتا ہے۔
دوستن بلوچ: ہم بلوچستان کے "لاپتہ افراد” کے بارے میں خبریں سنتے رہتے ہیں۔ بلوچستان میں لوگ غائب یا "لاپتہ” کیوں ہوتے ہیں؟
میر محمد علی تالپور: بلوچستان میں ‘لاپتہ افراد’ کا مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے اور یہ 1973 ء سے یہاں کی ریاستی پالیسی کے طور پر استعمال ہو رہا ہے تاکہ بلوچ قوم کی ان کے غیر منفک حقوق کے مطالبے اور بلوچستان کے وسائل کے استحصال کی مخالفت کو دبا سکیں۔
انسانیت کے خلاف یہ جرم لاطینی امریکہ، ایشیاء اور یہاں تک کہ یورپ میں بھی ریاستوں نے اختلاف رائے کو دبانے کے لئے استعمال کیا ہے لیکن اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہی ہیں کیونکہ وہ لوگ بلوچستان کے لوگوں کی طرح ان کی زندگیوں کو خطرہ ہونے کے باوجود مزاحمت کرتے رہتے ہیں۔
دوستن بلوچ: آپ جاری بلوچ جدوجہد آزادی اور اس کے علاقائی تعلقات پر اثرات کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
میر محمد علی تالپور: بلوچستان نہ صرف بطور جیوگرافی/حکمت عملی کی وجہ سے اہم ہے بلکہ اس میں بھرپور وسائل کی فراوانی ہے جس میں نہ صرف علاقائی طاقتیں بلکہ سب اس میں حصہ چاہتے ہیں۔تو جب بلوچ اپنے حقوق کے لئے جو بھی کرتے ہیں وہ ایک یا دوسری وجہ سے بلوچستان میں دلچسپی رکھنے والوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ جیسے کہ چین اپنے مفادات کے لئے وسائل اور اس کی اسٹریٹجک پوزیشن کو دیکھتا ہے تو قدرتی طور پر بلوچ جدوجہد کے خلاف عملاً کام کر رہا ہے جبکہ جو لوگ چین کے منصوبے کی مخالفت کرتے ہیں وہ دوسری صورت میں سوچتے ہیں۔
لیکن اس لئے کہ وہ چین کے منصوبوں کی مخالفت کرتے ہیں اس سے وہ بلوچوں کے دوست نہیں بن جاتے کہ وہ بلوچ سے ہمدردی رکھتے ہیں بلکہ اپنے مفادات کی وجہ سے چین کی مخالفت کرتے ہیں۔
بلوچ جدوجہد کو اپنی تاثیر اور وقار برقرار رکھنے کے لیے خود مختار اور خود کفیل ہونا پڑتا ہے۔
دوستن بلوچ: مقبوضہ بلوچستان میں پاکستان کے حالیہ فوجی بڑھاوا /شدت کے پیچھے ممکنہ عوامل کیا ہیں؟
میر محمد علی تالپور: بلوچستان میں فوجی سرگرمیوں کے اضافہ کو سمجھنے کے لئے ایک راکٹ سائنسدان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ استحصال کے خلاف مزاحمت پر زور دیا گیا ہے اور چین اپنی سرمایہ کاری کے لئے فوری واپسی چاہتا ہے۔ اس لئے بلوچستان میں معاشی اور سیاسی استحصال کی مزاحمت کو ٹھنڈا کرنے کے لئے سب کچھ کیا جارہا ہے۔ کاروائیوں میں اضافہ ہمیشہ مزاحمت کے تناسب میں کیا جائے گا۔
دوستن بلوچ: سی پی ای سی (چین پاکستان اقتصادی راہداری) پورے پاکستان اور بلوچستان میں لوگوں کی زندگیوں کو کس طرح متاثر کررہی ہے؟
میر محمد علی تالپور: سی پی ای سی (سی پیک) ایک نوآبادیاتی منصوبہ ہے اور یہ کسی بھی طرح سے بلوچستان کے لوگوں کی زندگیوں میں بہتری کا سبب نہیں بنے گی اور یہاں تک کہ پاکستان میں بھی ایک محدود اشرافیہ فوج کے ساتھ فوائد حاصل کرے گی۔
دوستن بلوچ: وزیرستان میں پشتون اتنے بے چین کیوں ہیں؟ پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) پاکستان اور جنوبی ایشیا میں مستقبل قریب میں کیا کردار ادا کر سکے گی؟
میر محمد علی تالپور: کئی دہائیوں سے پشتونوں کے خلاف ‘دہشت گردی کے خلاف جنگ’ کی آڑ میں ہونے والی ناانصافیوں کا ارتکاب کیا جارہا ہے اور پی ٹی ایم ان ناانصافیوں کا فطری رد عمل ہے۔ یہاں کے سیاسی منظر نامے میں پی ٹی ایم کے کیا اثرات مرتب ہوں گے اور خطے کا انحصار وہاں کی ناانصافیوں کی مزاحمت کے استقامت پر ہے۔ ایک ایسی مزاحمت جو ناانصافیوں کو چیلنج کرتی ہے۔ اس کے مثبت سیاسی اثرات صرف اس جگہ پر پڑ سکتے ہیں جہاں اس کا مقابلہ کیا جارہا ہے اور اس خطے میں مزاحمت کا قدرتی سطح پر اثر پڑتا ہے۔
دوستن بلوچ: افغانستان میں ہونے والی حالیہ پیش رفت (امریکہ طالبان امن معاہدہ، دہشت گرد حملے اور افغان حکومت کی تشکیل) کے تناظر میں کیا آپ کو لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں جنوبی ایشیا بھر میں طیران پزیری کا ایک تازہ دور ہوگا؟
میر محمد علی تالپور: افغان امن کو افغانوں کی کوششوں سے آنا ہے نہ کہ کسی تھکے ہوئے اور ناکام امریکہ سے جو اس گندگی سے بھاگنے کے لئے بے چین ہے جس کا ذمہ دار وہ 1978 سے ہے۔ اگر طالبان کو کنٹرول حاصل کرنے دیا جائے تو نتائج ان کے پہلے دور حکومت سے مختلف نہیں ہوں گے۔ افغانستان میں امن تب ہی آئے گا جب وہاں بیرونی مداخلت کو مکمل طور پر روکا جائے۔
دوستن بلوچ: آنے والے مہینوں میں عالمی وبا (کورونا وائرس) جنوبی ایشیا کے سیاست پر کس طرح اثر انداز ہوگا؟
میر محمد علی تالپور: کورونا وائرس پینڈیمک صرف جنوبی ایشیاء میں تبدیلی کا باعث نہیں بنے گا بلکہ یہ دنیا کو تبدیل کرنے والا ہے۔ سیاسی تناظر میں جنوبی ایشیا میں ہونے والی تبدیلیوں کی توقع بہت زیادہ ہے کیونکہ یہاں قائم شدہ اداروں کو لوگوں کی زندگیوں سے کوئی سروکار نہیں بلکہ تصادم میں دلچسپی ہے۔ مجھے زیادہ تبدیلی نظر نہیں آتی، یقینا، جب تک لوگ ان خود خدمات سرانجام دینے والی اسٹبلشمنٹ کا خاتمہ نہیں کرتے لیکن بظاہر یہ ایک خواب ہی رہنا ہے۔
دوستن بلوچ: امریکہ چین کشمکش اور امریکہ ایران کشمکش سے پاکستان اور جنوبی ایشیائی خطے پر کیا اثر پڑے گا؟
میر محمد علی تالپور: جب ہاتھی لڑتا ہے اور گھاس کو روند ڈالتا ہے۔ مختلف طاقتوں کے درمیان ہونے والی کشمکش یقیناً پاکستان اور جنوبی ایشیا پر شدید اثر ڈالے گی کیونکہ اس خطے کے ممالک بخوشی پراکسیز بن جاتے ہیں کیونکہ انہیں عام لوگوں کی فلاح و بہبود اور بھلائی کی بہت کم یا کوئی فکر نہیں ہوتی۔عام لوگ یہاں کی گھاس ہیں اور وہی لوگ ہیں جنہیں روند ڈالا جائے گا۔