بلوچ آزادی پسند تنظیموں کے اتحاد “براس” کیساتھ اتحادہے، ایس آر اے سربراہ سید اصغر شاہ کا خصوصی انٹرویو

0
796

سید اصغر شاہ کا جنم 1- اپریل 1971ع میں ضلع لاڑکانہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں “چَھتو واہن” کے ایک کسان گھرانے کے قومی کارکن سيد غلام مصطفٰی شاہ کے گھر میں ہوا۔
آپ اپنی بُنیادی تعلیم سندھی چار جماعت اپنے گاؤں کے قریب دوسرے گاؤں “احمد میتلا” سے پاس کرنے کے بعد حیدرآباد مُنتقل ہو گئے۔ جہاں گورنمنٹ پرائمری اسکول کاری موری حیدرآباد سے سال 1981ع میں پانچویں جماعت پاس کی۔
آپ نے سیکنڈری تعلیم(میٹرک) سال 1986ع میں نور محمد ھائی اسکول حیدرآباد ، ہائیر سیکنڈری تعلیم(انٹر) پری انجینئرنگ سال 1988ع میں گورنمنٹ ڈگری کالج کاری موری حیدرآباد اور پولیٹیکل سائنس میں گریجویشن سال 1991ع میں گورنمنٹ اسلامیہ ڈگری کالج بدین سے حاصل کی۔
آپ پیشے کے اعتبار سے جامشورو پاور ہاؤس میں بطور ٹیکنیشن کام کرتے رہے۔
آپ نے اپنی سیاسی جدوجہد کی شروعات 1986ع میں جیئے سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن(جساف) گورنمنٹ ڈگری کالج کاری موری حیدرآباد سے کی۔ جہاں دو سال یونٹ آرگنائزر رہے۔
آپ 1989ع ، 1990ع میں دو سال جساف گورنمنٹ اسلامیہ ڈگری کالج بدین کے جنرل سیکرٹری اور صدر رہے۔
آپ اپنے طالبِ علمی کے دور 1990ع سے مُزاحمتی سوچ ، افراد اور تنظیموں سے وابستہ رہے۔
آپ 1991ع سے 1993ع تک تین سال قومی تحریک میں اُس وقت کی مدھر پارٹی “جیئے سندھ محاذ” کی ذیلی تنظیم “سندھی پورہيت سنگت” یونٹ جامشورو پاور ہاؤس کے جنرل سیکرٹری ، صدر اور اُس کے بعد ضلعی صدر رہے۔
جنوری 1994ء میں شفیع محمد برفت اور سيد اصغر شاہ نے دوسرے دوستوں کے ساتھ مِل کر “جیئے سندھ انقلابی تنظيم” کی بُنیاد رکھی۔ جس تنظيم کے سيد اصغر شاہ 25- اپریل 1995ع میں سائیں جی ايم سيد کی وفات ، جیئے سندھ کی مختلف پارٹیوں کے ساتھ انضمام اور جیئے سندھ قومی محاذ(جسقم) کی تشکیل تک مرکزی تنظيمی سیکرٹری رہے۔
آپ 1996ع سے 2000ع تک تقریباً پانچ سال جسقم ضلع حیدرآباد کے آرگنائزنگ کمیٹی کے ممبر اور ضلع صدر رہے۔
جب نومبر 2000ع میں جیئے سندھ متحدہ محاذ(جسمم) کی بنیاد رکھی گئی تو سيد اصغر شاہ خود اُس کے بانی رہنماؤں میں شامل تھے۔ 2000ع سے لیکر 2010ع تک ، دس سالہ عرصے میں جسمم کے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری ، جنرل سیکرٹری اور سینئر وائس چیئرمین کے عہدوں پر فائز رہے۔
آپ جسمم میں رہتے ہوئے 2004ع سے لیکر 2005ع تک روپوش رہے۔ اُسی روپوشی کے دوران مرکزی جنرل سیکرٹری کی حیثیت میں 20- فروری 2005ع کو اختر کالونی کراچی سے پاکستان آرمی کے خُفیہ اداروں کے ہاتھوں لاپتہ ہوئے۔
آپ لگ بھگ ایک مہینہ کراچی اور حیدرآباد چھاؤنیوں میں آئی ايس آئی اور ایم آئی کے اذیت گاہوں میں رہے۔ جہاں آپ کو سخت جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جس کے بعد آئی جی سندھ پولیس نے پریس کانفرنس کے ذریعے جسمم کے دیگر دوستوں کے ساتھ مُلک دشمنی ، دہشت گردی اور انڈیا کے ساتھ تعلقات ہونے جیسے چھ مختلف مُقدمات میں گرفتاری ظاہر کر کے سینٹرل جیل حیدرآباد منتقل کر دیا۔
سيد اصغر شاہ کا جیل کے اندر چار سال تک “اِن سائیڈ ٹرائل” چلتا رہا۔ جیل کے اندر بھی پاکستانی ایجنسیوں کے کہنے پر مُقدمے کے پہلے سال انتہائی نظر داری میں “سِیِل اور بند وارڈوں” میں رکھا گیا۔
آپ جیل میں ہی تھے کہ 31- دسمبر 2007ع کو آپ کے والد اور مُزاحمتی سفر کے ساتھی سيد غلام مصطفٰی شاہ کا اِنتقال ہو گیا۔
آپ نے دورانِ قید کبھی پاکستانی عدالتوں کو ضمانت کے لیے درخواست نہیں دی۔ بلکہ سائیں جی ايم سيد کے عدالتی بيان کے بعد سيد اصغر شاہ ہی قومی تحریک کا رہنما ہے جنہوں نے عدالتوں میں ججوں کے سامنے “سندھو دیش کی آزادی کا اقرار” اور “پاکستان سے انکار” کا تحریری عدالتی بيان تیار کر کے پڑھا اور عدالت میں جمع کرایا۔ لیکن پاکستانی جھوٹی عدالتوں نے سقت نہ سمجھتے ہوئے آپ پر درج مُقدمات ختم کر کے 4- جنوری 2009ع کو بری کر دیا۔
آپ نے جیل سے رہائی کے بعد جسمم کو ایک دفعہ پھر ری- آرگنائز کرنے کے لئے پورے سندھ کا دورہ کیا۔ اِس دوران پارٹی اور اُس کے چیئرمین کے ساتھ سیاسی ، نظریاتی اور حکمت عملیوں کے اُصولی موقف اور بُنیاد پر تقریبا پورے دو سال پارٹی اداروں کے اندر جنگ لڑتا رہا تاکہ پارٹی کو موقع پرستی کا شکار ہونے سے بچایا جا سکے۔ لیکن آگے “نیت کھوٹی ، بہانے ہزار” کے سبب بِنا کِسی شور شرابے ، خاموشی کے ساتھ علحدہ ہو کر اپنے پُرانے اور نئے ساتھیوں کے ساتھ مِل کر نئے سرے سے سیاسی و مُزاحمتی صِف بندی جاری رکھی۔ جس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کئی انقلابی ساتھیوں کے ساتھ مِل کر دسمبر 2010ع میں ایس آر اے کی بنیاد رکھی اور اُس کا سربراہ بنا۔
سید اصغر شاہ سال 2010ع سے لیکر زیر زمین تنظیمی نام “شاہ عنایت” اور سال 2012ع سے عملی طور پر تنظيم کے نام سے کاروائیاں جاری رکھنے والی تنظيم ايس آر اے کی کمانڈ سنبھالتا آيا ہے۔

ايس آر اے چیف کمانڈر سید اصغر شاہ کے انقلابی کمانڈ میں گُذشتہ بارہ سالوں سے پاکستانی فورسز ، غیر ملکی آباد کاروں ، چائنیز ، مذہبی اِنتہا پسند تنظیموں اور پنجاب جانے والی سپلائی لائنوں پر حملے جاری رکھے ہوئی ہے۔

(نوٹ: سید اصغر شاہ صاحب کا یہ انٹرویوسندھی ریولیشنری آرمی ( ايس آر اے )کی جانب سے شائع ہونے والے پِہلے ترجمان میگزین “مُزاحمت” میں شائع ہوا ہے ۔ہم مُزاحمت میگزین کے شکریے کے ساتھ اسے “سنگر ” کے قارئین کے لیے پیش کر رہے ہیں۔ادارہ سنگر)

سوال : آپ نے اپنے سیاسی اور مُزاحمتی سفر کی شروعات کب اور کہاں سے کی؟


سيداصغرشاہ: کِسی بھی سماج کے معروضی ، سیاسی اور مُعاشی حالات آپ کے ذہن ، شعور اور جدوجہد کا تعین کرتے ہیں۔ میرا تعلق بُنیادی طور پر ایک غریب کسان گھرانے سے ہے۔ میں 80 کی دہائی میں اپنی تعلیم کے سلسلے میں ڈوکری (ضلع لاڑکانہ) کے چھوٹے سے گاؤں سے منتقل ہوکر حیدرآباد آيا تو میرے لیے اِس شہر کا ماحول اور دنیا بلکل مُختلف تھی۔ شہر کے بیشتر تعلیمی اداروں میں پاکستانی فوج کی جانب سے پنجابی طلباء کے لئے بنائی گئی تنظيم “نیو سندھی اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن(این ایس ایس او) کا قبضہ تھا۔ سندھی طلباء پر حملے ، فائرنگ ، اغوا اور تذلیل کے واقعات روز کا معمول بنے ہوئے تھے۔ دوسری طرف پورے شہر میں نَسلی ، لِسانی اور شائونسٹ مہاجر- سندھی سوچ اور سیاست کی آگ لگی ہوئی تھی۔ سندھی علاقوں ، مُحلوں اور لوگوں پر نَسلی ، لِسانی اور شائونسٹ مہاجر لوگوں اور تنظیموں کے خونخوار اور جان لیوا حملے جاری تھے۔ علاقوں ، مُحلوں ، سڑکوں ، راستوں ، چوکوں اور چوراہوں پر مسخ اور بے حرمت شدہ لاشیں بِکھری پڑی ہوتی تھیں اور نہ ختم ہونے والے کرفیو کے دن ہوتے تھے۔


جبکہ کُچھ سال قبل پنجاب سامراج اپنی ننگی جارحیت اور بے حیائی کے ساتھ ننگا ہوکر “ضیاء رجیم” کی شکل میں “جمہوریت کی بحالی والی تحریک”(ایم آر ڈی) کا بہانہ بنا کر سندھ کے گاؤں اور شہروں پر بمبارمینٹ کر کے سندھی عوام کا قتلِ عام( جینو سائیڈ ) کر چُکا تھا۔

ظاہر ہے کہ پنجابیوں کی ایسی ننگی جارحیت ، نَسلی ، لِسانی اور شائونسٹ مہاجر دہشتگردی اور تعلیمی اداروں میں این ایس ایس او کی غُنڈہ گردی کے اثرات پورے سندھ کی طرح میرے اوپر بھی پڑے۔


اِس طرح میں باضابطہ طور پر 1986ع سے جیئے سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن (جے ایس ایس ایف) اور قومی تحریک کی اُس وقت مَدھر پارٹی “جیئے سندھ محاذ” کی ذیلی تنظیم “سندھی پورہيت سنگت” میں سیاسی جدوجہد اور 1990ع سے مُزاحمتی جدوجہد کا حصہ بنا۔ جو جدوجہد اُس دن سے لیکر آج کے دن تک بِنا کسی فرق کے میدانِ کارِ زار میں تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔


یہ الگ بات ہے کہ ہمارے کئی سابقہ سیاسی و مُزاحمتی رہنما کاغذی شیر نِکلے جو “فِکری و عملی موقعہ پرستی” کا شکار ہو کر سندھ اور سائیں جی ايم سيد کی آدرشی اور مُقدس سياست سے کنارہ کش ہو کر بھاگ گئے۔


لیکن ہمیں آخری فرد اور آخری گولی تک اپنی آزادی اور وجود کے لیے پوری سچائی ، ایمانداری اور توانائی کے ساتھ چلنا اور جنگ کو جاری رکھنا ہے۔ یقیناً فتح سندھی عوام اور ہماری ہوگی۔

سوال : ایس آر اے کی بنیاد کب اور کیسے رکھی گئی؟

سیداصغرشاہ: میں اپنے مُطالعے اور مُشاہدے کی بُنیاد پر کِہتا ہوں کہ دنیا میں ایسا کوئی بھی انقلاب نہیں ہے جو مُسلح جدوجہد کے بَغیر نمودار ہوا ہو۔ دنیا میں جتنے بھی انقلاب آئے ہیں وہ کیوبا کا انقلاب ہو ، کوریا کا انقلاب ہو ، ویتنام ، لاؤس یا کمبوڈیا کا انقلاب ہو یہ تمام انقلاب مُسلح جدوجہد کے ذریعے ہی مُمکن ہوئے ہیں۔


جن قوموں نے مُسلح جنگ کے بغیر انقلاب لانے کی کوشش کی ، اُن کو بھی جلد يا بَدیر ہتھیار اُٹھانے پڑے ہیں۔ مشرقی تیمور والوں کو بھی ہتھیار اُٹھانے پڑے اور بنگلہ دیش والوں کو بھی ہتھیار اُٹھانے پڑے۔ ہتھیار پہلے اُٹھاؤ يا بعد میں اُٹھاؤ ، ہتھیار آپ کو ہر حال میں اُٹھانا پڑتا ہے۔ کیونکہ بغیر مُسلح جنگ کے انقلاب نا مکمل اور نا ممکن ہے۔
شاہ بھٹائی نے کہا ہے کہ؛
جا نِينہن ہِنھدي نانءُ
سا مُون جيئن پَوندي مامري.
(ترجمہ: جو عشق سے اپنا نام یا تعلق جوڑے گا اُس کو میری طرح مُشکلات کا سامنا کرنا پڑے گے۔)
جو انقلاب کا نام لے گا ، اُس کو مُشکلات کا سامنا تو کرنا پڑے گا۔ جِس کو مشکلات میں نہیں پڑنا ہے ، اُسے انقلاب کا دعوی بھی نہیں کرنا چاہیے۔


مُختلف رپورٹس اور تجزیے ہیں کہ اگر ماضی قریب میں مشرقی تیمور والے مُسلح جنگ لڑ کر آزادی لیتے تو شاید اُن کا اِتنا نقصان نہ ہوتا جِتنا نقصان اُن کو بعد میں اُٹھانا پڑا۔ تباہی تو ہر حال میں ہوتی ہے۔ بغیر تباہی کے نہ جنگ جیتی جا سکتی ہے اور نہ ہی لڑی جا سکتی ہے۔
لیکن جن قوموں نے مُسلح جنگ کر کے اپنی آزادی حاصل کی ہے اُن کا نقصان 60 يا 70 فیصد ہوتا ہے جب کہ مشرقی تیمور والوں کی تباہی 90 فیصد سے بھی زیادہ ہوئی تھی۔ کیونکہ انہوں نے انقلاب سے قبل مُسلح جنگ کی تیاری نہیں کی تھی ، بعد میں کی تھی اور اُس وقت تک دشمن ان کے 90 فیصد وسائل تباہ کر چُکا تھا۔ یہی صورتحال بنگلہ دیش کی تھی۔ بنگلہ دیش والے اگر لڑ کر آزادی لینے کا
فیصلہ کرتے اور وقت سے پِہلے مُسلح جنگ کی تیاری کرتے تو اُن کے 30 لاکھ افراد نہ مارے جاتے اور نہ ہی 3 لاکھ عورتوں کا ریپ ہوتا۔ بنگالیوں نے مُسلح جنگ کا فیصلہ دير سے کیا تھا بلکہ اُس وقت کیا تھا جب پنجابی فوج اُن کا قتلِ عام شروع کر چکی تھی۔
ہم نہیں چاہتے کہ سندھ میں بھی ایسی صورتحال پیدا ہو۔ کیونکہ سندھی عوام بھی خالی ہاتھ اور بے یارو مددگار ہیں۔ اِس لئے ہم چاہتے ہیں کہ اپنے عوام کو مُسلح کریں۔


اِس وقت صورتحال یہ ہے کہ پنجاب سامراج ہمارے وطن اور تمام وسائل پر قابض ہو چکا ہے۔ سندھ کی جغرافیہ ، قومی وجود ، تاريخ ، سمندر ، دریا ، جنگلات ، زرخیز زمینیں ، پہاڑ اور معدنی وسائل مکمل طور پر پنجاب کے قبضے میں ہیں۔ دشمن جَب اور جِس وقت چاہتا ہے ہمارے وسائل کو نیلام کرنے کا اعلان کرتا ہے۔ کبھی پہاڑوں کو نیلام کرتا ہے ، کبھی بندرگاہوں کی قیمت لگاتا ہے تو کبھی سندھ کے جزیروں کو فروخت کرنے کی باتیں کرتا ہے۔ کیا ہم بحیثیت قوم کے یہ سمجھتے ہیں کہ قبضہ کیا ہوا ہمارا وطن اور ہمارے تمام وسائل دشمن آسانی سے ہمیں واپس کر دے گا؟ اور بغیر مُزاحمت کئے ہوئے صرف ہمارے مطالبوں پر پُر امن طریقے سے نکل جائے گا؟ نہیں قطعی نہیں۔


تیل ، گیس کے یہ ذخائر ، تھر سے ملنے والے کھربوں روپے مالیت کے کوئلے اور نایاب و قیمتی پتھروں کی یہ کانیں دشمن بغیر مرنے مارنے کے کبھی نہیں چھوڑے گا۔ اِس کے لیے ہمیں ایک خطرناک اور خُونریز جنگ سے گُزرنا پڑے گا۔ جس جنگ کی تیاری ہمیں اور آپ کو کرنا ہے۔


اِس لئے سندھ کے بهادر اور سرفروش فرزندوں نے فیصلہ کیا کہ وطن کی آزادی کے لیے سروں پر کفن باندھ کر نِکلنے کا وقت آ گیا ہے اور اِسی فیصلے کے تحت دسمبر 2010ع میں ایس آر اے کی بنیاد رکھی گئی۔


میں اوپر اِس بات کا ذکر کر چُکا ہوں کہ میری 1990ع سے مُزاحمت سے وابستگی رہی ہے۔ تاريخ کا ریکارڈ دُرست رکھنے کے لیے اُس پورے عرصے پر کسی دوسرے موقع پر گفتگو کریں گے۔ لیکن یہاں میں اِتنا ضرور کہوں گا کہ اُس وقت جن کے ساتھ کام کیا ، اُن میں سے کچھ سندھو دیش کے موقف سے ہٹ کر پَکے پاکستانی بن گئے ، دوسرے خوف ، ذاتی خواہشات اور داخلیت پسندی کا شکار ہو کر راہِ فَراریت اختيار کر گئے اور تیسرے مُزاحمت ، شہداء اور کیڈر کے ساتھ دھوکہ دہی کر کے میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ اِس طرح سندھ کی مزاحمت کے ساتھ دھوکے کئے گئے۔


بہرحال ايس آر اے اور مُزاحمت ہمارے اور آپ کے پاس اپنے وطن کی آزادی اور دفاع کے لیے ماضی میں لڑی گئی جنگوں کا تسلسل اور امانت ہے۔ جس کو ہر حال میں متحد اور منظم کر کے آگے لے جانا ہے۔

سوال : اِس وقت سندھ کی قومی تحریک کو 50 سال کا عرصہ گُزر چکا ہے۔ اس آدھی صدی کے عرصے میں قومی تحریک کِتنی مُتحرک ہو چکی ہے؟

سید اصغر شاہ: ہمیں باریک بینی اور کُھلے ذہن کے ساتھ یہ سمجھنا ہو گا کہ ہر قومی تحریک کی بُنیاد رکھتے وقت اُس کے مقصد اور پروگرام کا تعین کیا جاتا ہے۔ قومی تحریک کی بُنیاد رکھتے وقت سائیں جی ايم سيد نے یہ طے کیا تھا کہ “ہمارا مقصد آزاد سندھو دیش کے نام پر سندھ کی آزاد اور خود مختار ریاست کا قیام ہے”۔ اِس نعرے کا مقصد یہ تھا کہ “ہم اب پاکستان میں زیادہ دیر رہ نہیں سکتے”۔ “پاکستان کے اندر مظلوم قوموں کو کُچھ مِلنے والا نہیں۔ کیونکہ پاکستان پر ایک قوم کا قبضہ ہے اور وہ ہے پنجابی قوم”۔
پاکستان پنجابی قوم کے مفادات کے لیے قائم کیا گیا تھا اور جِتنی دير قائم رہے گا مظلوم قوموں کو لوٹے گا ، مارے گا اور پنجابیوں کے مفادات کا تحفظ کرتا رہے گا”۔ پنجابی اتنے شاطر اور مَکار ہیں جنہوں نے پاکستان کے قیام کے وقت ایسا کوئی تاثر ہی نہیں دیا کہ یہ ملک پنجاب کے مفادات کے لیے وجود میں آ رہا ہے۔ اُس وقت اِن پنجابیوں نے جناح اور لیاقت خان جیسے بے وقوفوں کو سامنے لا کر یہ تاثر دیا کہ یہ ملک مسلمانوں کے مفاد کے لیے بن رہا ہے۔ پنجاب کا اصل بھیانک روپ اُس وقت سامنے آیا ، جب بنگالیوں نے اپنے حقوق مانگے ۔ اُس وقت عِلم ہوا کہ یہ ملک پنجاب کے لئے قائم ہوا تھا اور پنجابی جرنیل اِس ملک کے اصل مالک ہیں۔ جس نے پنجابی جرنیلوں کی غلامی قبول کی وہ اِس ملک میں رہے اور جس نے غلامی قبول نہیں کی وہ اس ملک سے الگ ہو جائے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پنجابی جرنیلوں کی غلامی قبول کی اور سائیں جی ايم سيد نے پاکستان سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا۔


جب سائیں جی ايم سيد نے سندھو دیش کا پروگرام اور نعرہ دیا تھا اُس وقت بنگلہ دیش نیا نیا پاکستان سے الگ ہوا تھا۔ بنگلہ دیش کے الگ ہونے کی وجہ بنگالی قومپرستی تھی ، اِس لیے پنجابی ، قومپرستی کی تحریک سے بڑے خوفزدہ تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار اِس شرط پر دیا گیا تھا کہ وہ سندھ اور بلوچستان کی قومپرست تحریکوں کو کُچل دے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان کی قومی تحریک کو کُچلنے کے لیے جس جارحانہ طاقت کا استعمال کیا اُس کا ذکر تاريخ کے صُفحات میں موجود ہے۔ لیکن بھٹو نے سندھ کی قومی تحریک کو کُچلنے کے لیے بھی کوئی کَمی نہیں چھوڑی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے پاس رياست کی پوری طاقت تھی۔ ریاستی طاقت کے علاوہ پیپلز پارٹی کی شکل میں پارٹی سیٹ اپ بھی موجود تھا۔ بھٹو نے قومی تحریک کا راستہ روکنے کے لئے رياست اور پارٹی دونوں کا استعمال کیا ، لیکن بُری طرح ناکام ہوا۔ سائیں جی ايم سيد کا دِیا ہوا قومی فِکر سندھ کے نوجوانوں میں تیزی کے ساتھ پھیل رہا تھا۔ سندھ کے تعلیمی ادارے قومپرستوں کے کنٹرول میں آ چکے تھے۔ سندھ کا ایسا کوئی بھی شہر نہ تھا جہاں تعلیمی اداروں میں جیئے سندھ کا یونٹ قائم نہیں ہوا ہو ۔ سندھ کے تعلیمی اداروں میں قومپرستوں کے بڑھتے ہوئے اثر کو روکنے کے لئے ذوالفقار علی بھٹو نے سپاف کو منظم کیا۔ سپاف نے تعلیمی اداروں پر کنٹرول حاصل کرنے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ یہ رياست کی شکست اور قومی تحریک کی فتح تھی۔


کسی بھی قومی تحریک کے تین مراحل ہوتے ہیں۔ پہلا مرحلہ پرچار(تبلیغ) کا ہوتا ہے۔ اِس مرحلے میں تحریک کی فِکری بنیادوں کو عوام تک پُہنچایا جاتا ہے۔ طالبِ علم جو کسی بھی سماج کا سب سے زیادہ با شعور حصہ ہوتا ہے ، اس لیے سب سے پہلے طالبِ علم اور پڑھے لِکھے افراد تحریک سے متاثر ہوتے ہیں۔ یہی وہ سبب ہے کہ سائیں جی ايم سيد کا دِیا ہوا قومپرستی کا فِکر سب سے پہلے طالب علموں اور پڑھے لِکھے افراد میں مقبول اور مضبوط ہوا۔


پرچار کے بعد دوسرا مرحلہ تنظيم سازی کا ہوتا ہے۔ جب افراد نظریاتی و فِکری لحاظ سے آپ سے متفق ہو جائیں ، تو پھر اُن کو ایک تنظيم کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کارکنوں اور عوام میں فرق ہوتا ہے۔ کارکنوں کو تنظيمی نظم و ضبط کا پابند کرنے کے لیے تنظيم کا ممبر بنانا ضروری ہوتا ہے لیکن عوام کو تنظيم کا ممبر بنانا ضروری نہیں ہوتا ۔ کیونکہ عوام تنظيمی ڈسپلن کے تابع نہیں چلتا۔ عوام کے لئے یہ کافی ہوتا ہے کہ وہ آپ کے جلسے و جلوسوں میں شرکت کریں اور آپ کی حمایت کریں۔ جب عوام آپ کے جلسے و جلوسوں میں شرکت کرنا شروع ہو جائیں تو سمجھیں کہ آپ کا دِیا ہوا فِکر عوام میں سَرائیت اختيار کر چُکا ہے۔ آج اگر اِن جہتوں پر قومپرست تحریک کو دیکھیں تو گذشتہ پچاس سالوں میں قومپرست تحریک نے بہت بڑی ارتقا کی ہے۔ ایک دور تھا جب عوام سائیں جی ايم سيد کے نام سے بھی واقف نہ تھا ، لیکن اِس وقت سندھ کا بچہ بچہ سائیں جی ايم سيد کو اچھی طرح جانتا ہے۔ نہ صرف جانتا ہے بلکہ فِکرِ سائیں جی ايم سيد سے بھی واقف ہے ۔ عوام کو اونٹھ کتابوں کے پڑھانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ عوام کے نظریاتی پیمانے کو اِس طرح جانچا جا سکتا ہے کہ وہ پاکستان سے بیزاری کا اظہار کرتا ہے یا نہیں۔ جب عوام پاکستان سے بیزاری کا اظہار کرے اور پاکستان کے چُنگل سے جان چُھڑانے کی کوشش کرے تو سمجھو ، آپ کا نظریاتی مرحلہ مُکمل ہو چکا ہے اور فِکرِ سائیں جی ايم سيد عوام تک پُہنچ چکا ہے۔


قومی تحریک کی مقبولیت کو جانچنے کا دوسرا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ قومی تضاد سماج اور ماحول کے اندر کتنا سَرائیت کر چُکا ہے۔ جہاں تک قومی تضاد کے مضبوط ہونے کا سوال ہے تو ایک دور ایسا ہوتا تھا جب قومی کارکنان قومی فِکر کا پرچار کُھلے عام کے بجائے چار دیواری میں چُھپ کر کرتے تھے۔ اخبارات قومی مسائل پر لِکھنے سے خوفزدہ ہوتے تھے۔ لیکن آج یہ قومی تضاد اُس سطح پر پُہنچ چُکا ہے کہ سماج کے ادیب اور دانشور بے دھڑک قومی تضاد پر کالم تحریر کر رہے ہیں اور اخبارات و رسالے بے خوف ہو کر کالم شائع کر رہے ہیں۔ پِہلے جن نعروں پر رياست کارکنوں کو گرفتار کر کے لے جاتی تھی ، اب اُن نعروں کی آواز اسمبلی ایوانوں میں سُننے میں آ رہی ہیں۔ یہ سب کُچھ ظاہر کرتا ہے کہ قومی تضاد ارتقاء کر کے مضبوط ہو چُکا ہے اور اِتنا مضبوط ہو چُکا ہے کہ ہر مکتبہِ فِکر کے افراد اُس سے مُتاثر ہو رہے ہیں۔ جب تضاد معاشرے کے اندر اِس حد تک سَرائیت کر چُکا ہو کہ ہر طرف اُس کی گونج ہو تو پھر سمجھ لو کہ تحریک آخری اور تیسرے مرحلے میں داخل ہونے کے لیے تیار ہے اور یہ تیسرا مرحلہ ہے انقلابی جنگ کا مرحلہ۔


رياست جب یہ محسوس کرتی ہے کہ تحریک فیصلہ کُن مرحلے میں داخل ہو چُکی ہے اور کِسی بھی وقت بغاوت ہو سکتی ہے ، تو اُس وقت رياست پوری طاقت کے ساتھ تحریک کو کُچلنا شروع کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِس وقت سندھ میں قومی تحریک کو ختم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ اِس وقت پورے سندھ میں قومپرست تحریک کے یونٹوں کو بند کروانے اور زبردستی پریس کانفرنسیں کروانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ سائیں جی ايم سيد کی سالگرہ اور برسی پر کارکنوں کی آمد کو روکنے کے لیے روڈوں اور راستوں پر کرفیو لگا دیا جاتا ہے۔ مُتحرک قومی ، سیاسی اور انقلابی کارکنوں کی جبری گمشدگی کر کے بعد میں اُن کی مسخ شدہ لاشیں دی جاتی ہیں۔ کیونکہ پنجابیوں کو خوف ہے کہ اگر اب قومی تحریک کو روکا نہ گیا تو رياست کی موت یقینی ہے۔ جب رياست کو اپنی موت نظر آتی ہے تو وہ انسانیت سے گِرے ہوئے ہتھکنڈوں پر اُتر آتی ہے۔ اِس مرحلے پر پُہنچ کر رياست قیادتوں کی خرید و فروخت شروع کر دیتی ہے۔ قیادتوں کو جلسے جلوس کرنے سے روکتی ہے۔ قومی تحریک کو غیر موثر کرنے کے لیے یا تو قیادتوں پر دباؤ بڑھا دیا جاتا ہے یا اُن کو لالچ دیا جاتا ہے۔ لیکن اِس صورتحال میں قومی کارکنوں کو گھبرانے یا مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ قومی فکر پر ڈٹے رہنے کی سخت ضرورت ہے۔ آپ جِتنی مضبوطی کے ساتھ ڈٹے رہو گے ، اُتنی رياست کی شکست یقینی ہوتی جائے گی۔


یقین جانیں کہ آپ وہ تمام مراحل طے کر چُکے ہیں اِس لیے رياست آپ سے خوفزدہ ہو چکی ہے اور اُس کو اپنا موت نظر آ رہا ہے۔ اس لئے رياست آپ سے اپنی بقاء کی آخری جنگ لڑ رہی ہے اور یہ جنگ آپ کو جیتنی ہے۔ یاد رکھیں انقلاب میں جب ایسے مرحلے آتے ہیں تو پھر کمزور ، بُزدل اور مفاد پرست قیادتیں ميدان میں کھڑی نہیں رہ سکتی ہیں اور خود ميدان چھوڑ کر پیچھے ہٹ جاتی ہیں۔ اُس وقت جب قیادت کا خلا پیدا ہو جاتا ہے تو حقیقی انقلابی قوتیں آگے بڑھ کر قیادت سنبھال لیتی ہیں۔ کارکنوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ رياست کو جب یہ محسوس ہوتا ہے کہ قومی تحریک انقلاب کے مراحل مکمل کر کے فیصلہ کُن جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے تب وہ اپنے پالتو لوگوں کو چھوڑ دیتا ہے کہ وہ قومی تحریک کے خلاف پروپیگنڈہ کر کے قومی کارکنوں کے ذہن خراب اور کنفیوز کریں۔ عین اُس وقت مُخلص ، ایماندار اور بہادر کارکنوں کا قومی فریضہ بنتا ہے کہ رياست کے چھوڑے ہوئے ایسے دلالوں کو رد کر کے انقلابی مُزاحمتی قوتوں کا ساتھ دیں اور اِن کے ہاتھ مضبوط کریں۔

سوال : گوريلا جنگ کی موجودہ وقت میں علاقائی اور عالمی تناظر میں کِتنی اہمیت و افادیت ہے؟

سید اصغر شاہ: ہمارے بہت سے پڑھے لِکھے دوستوں کے ذہنوں میں گوريلا جنگ کے بارے میں بہت سے غلط اور بچگانہ تصورات ہیں۔ اِس لیے اس سوال کو نئے حالات میں نئے تقاضوں کے تحت سمجھنے کی ضرورت ہے۔


کسی بھی انقلاب کے لیے بُنیادی اور اہم کردار داخلی(اندرونی)تضاد طے کرتے ہیں۔ کیونکہ چُولہے میں پُھونکنے سے آگ نہیں جلتی ہے۔ آگ چُولہے میں موجود لکڑیوں کو لگتی ہے۔ جب چُولہے میں لکڑیاں ہی نہ ہوں تو آپ کتنا بھی پُھونکے لیکن آگ نہیں جلے گی۔ خارجی(بیرونی)تضاد کا کردار باہر بیٹھ کر پُھونکنے والا ہوتا ہے۔ آگ جلانے میں اصل اور بُنیادی کردار داخلی تضاد کا ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ اُن لکڑیوں کا ہوتا ہے جو چُولہے کے اندر موجود ہوتی ہیں۔


جب ہم سندھ کے داخلی حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو عوام نے ہر وقت انقلابی قوتوں کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ شہید بشیر خان قریشی نے “سندھ مانگے آزادی” کے بینر اور نعرے تَلے دو دفعہ عوامی جلسہ اور مارچ کیا اور دونوں دفعہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔ سندھ ایکشن کمیٹی نے بحریہ ٹاؤن کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا ، جس مظاہرے میں عوام کی کثیر تعداد نے اپنے خرچے پر شرکت کی۔ ماضی میں سندھ قومی اتحاد(SNA) کے پلیٹ فارم سے جلسے اور ہڑتالیں ہوں ، کالاباغ ڈیم کے خلاف جدوجہد ہو ، دُہرے بلدیاتی نظام کے خلاف عوامی ریفرنڈم ہو یا سائیں جی ايم سيد کی سالگرہ اور برسی کے پروگرام ہوں عوام لاکھوں کی تعداد میں شریک ہوتا رہا ہے۔ عوام لاکھوں کی تعداد میں اُس وقت نکل آتا ہے جب داخلی تضاد میچوئر ہو چُکا ہو۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ کے اندر قومی تضاد میچوئر ہو چکا ہے۔ بس ضرورت اِس بات کی ہے کہ لوگوں کو باہر آنے کے لیے بُلایا جائے اور مُنظم کیا جائے۔ اِس وقت قومی تحریک میں اگر کَمی اور فُقدان ہے تو وہ ہے بے لوث ، دیانتدار اور بہادر قیادت کا۔ لیکن بدقسمتی سے سندھ کا المیہ یہ ہے کہ انقلاب کی قیادت بُزدل ، موقع پرست اور پینی ٹریٹ شدہ رد انقلاب قوتیں کر رہی ہیں۔


ایک ہوتے ہیں معروضی تضاد دوسرے ہوتے ہیں موضوعی تضاد۔ معروضی تضاد کو تو اِن قیادتوں نے اُلجھا دیا ہے۔ جبکہ موضوعی تضاد کو سندھ کے نام نہاد دانشور اُلجھا رہے ہیں۔ معروضی تضاد تو حالات میں خود پیدا ہوتے ہیں لیکن موضوعی تضاد کو اُبھارنے میں دانشور اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کیونکہ موضوعی تضاد کو بحث مباحثے کے ذریعے سماج میں لایا جاتا ہے۔ اِس وقت سندھ میں موضوعی تضاد جن دانشوروں کے ہاتھوں اور ذہنوں میں جَکڑا ہوا ہے اِن دانشوروں میں سے 80 فیصد دانشور رياست کے حامی اور سندھ کی قومی آزادی کے مخالف ہیں۔ بلکہ سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ یہ مُسلح جدوجہد کے بدترین دشمن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ اِس بات کے مخالف ہیں کہ کوئی مُسلح جدوجہد کی بات کرنے والی تنظيم آکر انقلاب کی قیادت کرے۔ اِن کا سب سے بڑا دلیل یہ ہوتا ہے کہ دنیا صرف اسٹیک ہولڈرز سے بات کرتی ہے اور اِن کے نظر میں اسٹیک ہولڈرز وہ ہیں جو پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اِن دانشوروں کو یہ بھی پتا ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ میں کون بیٹھے ہیں۔ یہ حکومتی دانشور خود تسلیم کرتے ہیں کہ اِس پاکستانی ریاست میں انتخابی نتائج انجینئرڈ ہیں۔ یہاں الیکشن کے نتائج وہ ادارے خود بناتے ہیں جنہوں نے پاکستان کی پوری سیاست کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ جس رياست میں سیاست یرغمال ہو وہاں قوم کی تقدیر کا فیصلہ ایسے افراد کے ہاتھوں میں دیا گیا ہے جو پرائمری کے طالبِ علموں کی طرح پانی پینے کے لیے بھی ہاتھ بُلند کر کے اجازت لیتے ہیں۔ ان دانشوروں کو یہ بھی علم ہے کہ شیخ مجیب کے تجربے کے بعد پاکستان کے طاقتور فوجی اداروں نے طے کر لیا تھا کہ صاف و شفاف انتخابات کرانے ہی نہیں ہیں۔ جبکہ منعقد کئے بھی تو قوم پرستوں کو پارلیمنٹ میں آنے نہیں دیں گے۔ یہ سب علم ہونے کے بعد بھی یہ دانشور انقلاب کو اُلجھانے اور کارکنوں کے ذہنوں کو مُنتشر کرنے کے لیے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں کہ قوم پرستوں کو اپنی طاقت ثابت کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں آنا چاہیے۔ کیونکہ دنیا صرف اسٹیک ہولڈرز سے بات کرتی ہے۔ دنیا صرف اسٹیک ہولڈرز سے بات کرتی ہے یہ پورا سچ نہیں ہے بلکہ آدھا سچ ہے۔ سچ یہ ہے کہ دنیا طاقتور سے بات کرتی ہے۔ دنیا جب طالبان سے بات کر سکتی ہے تو انقلابی قوتوں سے کیوں بات نہیں کر سکتی ہے؟ شرط یہ ہے کہ ہم خود کو طاقتور ثابت کریں۔ قومی کارکنوں کو ایک بات واضح طور پر سمجھنی چاہیے کہ پاکستان کے کرتا دھرتا حقیقی انقلابی قوتوں کو پارلیمنٹ میں کبھی بھی آنے نہیں دیں گے۔ اگر آنے دیں گے تو وہ بھی اپنے دلالوں کو آنے دیں گے۔ یہ دلال آپ کو قومی آزادی لے کر دیں یہ تو دور کی بات ہے لیکن عدم تشدد اور پر امن انقلاب کے نام پر آپ کو رياست کے بنائے گئے مخصوص دائروں میں چَلاتے رہیں گے۔ تب تک پنجاب ہمیں اقلیت میں تبدیل کر کے ختم کر دے گا۔ اس لیے ہم سندھیوں کے پاس زندہ رہنے کا ایک ہی راستہ ہے وہ ہے مُسلح انقلابی گوريلا جنگ۔


یہ درست ہے کہ مُسلح جنگ کی تیاری کرتے وقت ہمیں اتحادی مُلکوں اور قوتوں کی ضرورت ہوگی۔ کیونکہ جنگ کی تیاری کے لیے ہمیں ہتھیاروں اور جنگی تربیت کی ضرورت ہو گی۔ وہ مدد جو ہمارے اتحادی مُمالک اور قوتیں فراہم کر سکتے ہیں۔ اس وقت عالمی سطح پر کوئی ایسا قائم کردہ اتحاد یا بلاک موجود نہیں ہے جو انقلابی قوتوں کی مدد کرے پھر بھی ہمیں “دُشمن کا دُشمن ، ہمارا دوست” کے فارمولے اور طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے اپنے اتحادی اور دوست خود تلاش کرنے اور بنانے ہوں گے۔ اگرچہ اِس وقت اپنے منشور ، پروگرام اور ایجنڈے کے تحت اتحادی یا دوست تلاش کرنا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ لہٰذا ایک انقلابی تنظيم کے طور پر ایس آر اے اپنے اتحادیوں اور دوستوں کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہے۔ لیکن اگر ہمیں اتحادی نہیں ملتے تو پھر بھی ہمیں اپنے وطن کی آزادی کے لیے جنگ ہر قیمت پر لڑنی ہوگی اور اپنے بنیادوں پر جنگ کی تیاری کرنی ہوگی۔ جیسے مشرقی تیمور والوں نے کی اور جیسے ہمارے برادر بلوچ کر رہے ہیں۔ ایسے ہی ہم سندھیوں کو بھی انقلابی جنگ کی تیاری کرنی ہوگی۔ جنگ ہماری خواہش نہیں ہے بلکہ ہمارے مادرِ وطن پر زبردستی مُسلط کی گئی ہے۔ لہٰذا ہمیں پنجاب سامراج کو شکست دینے کے لئے بندوق اُٹھانی ہوگی۔ اس کے علاوہ ہم سندھیوں کے پاس اور کوئی حل نہیں ہے۔

سوال : سندھ کے کِسان ، مزدور اور طالبِ علموں کی سندھ کی مزاحمتی جنگ میں کیا اہمیت ہے؟

سید اصغر شاہ: سائنس ہو یا انقلاب ہو ، اِن کے اُصول ، قاعدے ، قانون اور فارمولے طے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب پانی کا فارمولا H2O ہے تو وہ H2O ہی رہے گا ، تبدیل نہیں ہو گا۔ دنیا کا کوئی بھی سائنسدان دنیا کی کِسی بھی لیبارٹری میں جب پانی تيار کرے گا تو آکسیجن اور ہائیڈروجن کے ایٹم کا اِمتزاج کرے گا۔ کوئی بھی سائنسدان نائٹروجن اور ہائیڈروجن کے ایٹم مِلا کر پانی تيار نہیں کر سکتا ہے۔ اِسی طرح انقلاب کے بھی طے شدہ اُصول ، قاعدے ، قانون اور فارمولے ہوتے ہیں۔ قومی آزادی کا انقلاب صرف سندھ میں نہیں آ رہا ہے بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں آیا ہے اور مُستقبل میں بھی آئے گا۔


اِس لیے طالبِ علموں ، کسانوں اور مزدوروں نے دنیا کے اندر قومی انقلابوں میں جو کردار ادا کیا ہے وہ ہی کردار سندھ میں بھی ادا کریں گے۔


طالبِ علم ہو یا سماج کا پڑھا لِکھا حصہ ہو وہ کسی بھی انقلاب کی مُحَرَک قوت کے طور پر کردار ادا کرتا رہا ہے۔ مُحَرَک قوت سے مُراد ہے ، تَحرکُ دینے والی قوت۔ اِس لیے تحریک کو جنم ہی مُحَرَک قوت دیتی ہے۔ جب مُحَرَک قوت نہ ہو تو تحریک جنم ہی نہیں لے سکتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ طالبِ علم اور پڑھے لِکھے حصے کے بغیر کوئی بھی تحریک اُبھر نہیں سکتی ہے۔ طالبِ علم اور پڑھا لِکھا حصہ جن میں ڈاکٹر ، پروفیسر ، وکیل ، چھوٹے تاجر اور نوکری پیشہ افراد شامل ہیں اِن سب کے اِمتزاج کو متوسط طبقہ(مِڈل کلاس)کہا جاتا ہے اور یہی متوسط طبقہ(مِڈل کلاس) کسی بھی تحریک کی جان ہوتا ہے۔ اِس لیے تحریک کی قیادت بھی یہی متوسط طبقہ(مِڈل کلاس) سنبھالتا ہے۔


یہ درست ہے کہ متوسط طبقہ(مڈل کلاس) تحریک کی جان ہوتا ہے لیکن کسان اور مزدور دو ایسے حصے ہیں جو بھی انقلاب کی جان ہوتے ہیں۔ کیونکہ کِسان اور مزدور عوام ہیں اور عوام کی شرکت کے بغیر کوئی بھی انقلاب نہیں آ سکتا ہے۔ تحریک کِتنی بھی مضبوط ہو ، کِتنی بھی جاندار ہو لیکن جب عوام تحریک کے ساتھ نہ ہو ، اُس کی حمایت نہ کریں تو وہ تحریک انقلاب پیدا نہیں کر سکتی ہے۔


اس لیے کہا جاتا ہے کہ عوام انقلاب کی اصل اور فیصلہ کُن قوت ہوتی ہے۔ انقلاب عوام لاتے ہیں ، نہ اتحادی قوتیں لاتی ہیں اور نہ ہی تنہا طالبِ علم ، ڈاکٹر ، پروفیسر یا وکیل لاتے ہیں۔ لیکن اِن سب قوتوں کو آپس میں مل کر انقلاب کے لیے اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے حقیقی انقلابی پارٹی ہو یا مُزاحمتی تنظيم ہو اِن سب قوتوں (طالبِ علموں ، کسانوں اور مزدوروں) کو اپنے ساتھ مِلا کر چلتی ہے اور قومی آزادی کا انقلاب برپا کرتی ہے۔

سوال : مظلوم اقوام کی جنگ کو رياست اور بعض جماعتیں “پراکسی وار” کِہتے ہیں۔ آپ اِس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

سید اصغر شاہ: مظلوم قوموں کی حقیقی انقلابی جنگ اپنے سماج اور عوام کے اندر سے پیدا ہوتی ہے اور اپنے ہی حالات سے ارتقا کر کے پراوان چڑھتی ہے۔ انقلابی قوتیں کِسی کی بھی پراکسی ہو کر نہیں چلتی ہیں۔ اُن کے پاس اپنا ایک منشور ہوتا ہے ، اپنا ایک پروگرام ہوتا ہے اور اپنا ایک ایجنڈا ہوتا ہے۔ انقلابی قوتیں جِتنی بھی سیاسی ، سُفارتی اور اخلاقی حمایت اور مدد حاصل کرتی ہیں ، اپنے منشور ، پروگرام اور ایجنڈے کے تحت حاصل کرتی ہیں۔ ایک انقلابی اور ایک پراکسی میں یہ تفاوت ہوتا ہے کہ پراکسی باہر کی قوتوں کا نمائندہ ہوتا ہے اور انقلابی اپنے عوام کا نمائندہ ہوتا ہے۔ پراکسی دوسروں کا ایجنٹ اور گُماشتا ہو کر اُن کے پروگرام اور ایجنڈے پر چلتا ہے جبکہ انقلابی اپنے منشور ، پروگرام اور ایجنڈے کی پیروی کرتا ہے۔


مظلوم اقوام کی انقلابی جنگ کو پراکسی وار کِہنے کی اصطلاح اور فارمولا کافی پُرانا ہے۔ جو ہر دور میں استعمال ہوا ہے اور اب بھی رياست اور اُس کی دلال جماعتیں زور و شور سے استعمال کر رہی ہیں۔


جب انقلابی تنظیموں پر ایجنسیاں پراکسی ہونے کا لیبل لگاتی ہیں تو اِن تنظیموں کو بدنام کرنے کے لیے پروپیگنڈہ شعبے کو بھی مُتحرک کیا جاتا ہے تاکہ اُن تنظیموں کے خلاف غلیظ ترین پروپیگنڈہ شروع کرائی جا سکے۔ اُن تنظیموں پر نہ صرف غیر ملکی ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے بلکہ یہ بھی پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ یہ تنظیمیں باہر بیٹھے طاقتوں کی پراکسی اور اُنہی کے اشارے پر کام کرتی ہیں۔ یہ تمام غلیظ پروپیگنڈہ کرنے کے لئے رياست نہ صرف اپنی میڈیا کے تمام ذرائع استعمال کرتی ہے بلکہ ایسی تنظیموں کو بھی استعمال کیا جاتا ہے جنہیں خاص طور پر اِس کام کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ ایسی تنظیمیں بظاہر خود کو قوم پرست ، ترقی پسند اور انقلابی کِہتی ہیں لیکن اصل میں رياست کی سہولت کار ہوتی ہیں۔ رياست سے مراعات لینے والی ایسی تنظیموں کا کام ہی یہی ہوتا ہے کہ انقلاب کا نام لے کر انقلاب کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کریں اور حقیقی انقلابی قوتوں کا راستہ روکیں۔


جب رياست حقیقی انقلابی قوتوں کے خلاف پروپیگنڈے شروع کرتی ہے تو ایسی پالتو تنظیموں کو آگے کیا جاتا ہے۔ اُس وقت جب رياست کی پالتو تنظیمیں پروپیگنڈے میں مصروف ہوتی ہیں تو رياست اپنے مراعات یافتہ دانشوروں کو بھی آگے لاتی ہے۔ جو بظاہر تو سماج کو سُدھارنے والے اور عوام دوست کِہلاتے ہیں لیکن پسِ پردہ رياست سے مراعات لیتے ہیں۔ اِن کا طرزِ زندگی بڑی شان و شوکت والا ہوتا ہے۔ یہ دانشور سرکاری تقریبات میں بھی جاتے ہیں ، سرکاری اہلکاروں کے ساتھ تعلقات بھی رکھتے ہیں اور دکھاوے کے لیے غریبوں ، عورتوں اور انسانی حقوق کی باتیں بھی کرتے ہیں۔ یہ دانشور ميدان میں آنے کے بعد سب سے پہلے اِن پالتو تنظیموں کے موقف کی حمایت کرتے ہیں اور تصدیق کرتے ہیں کہ یہ انقلابی جنگ نہیں بلکہ پراکسی وار ہے۔ ایسے دانشور دلیل یہ دیتے ہیں کہ آج کا دور مُسلح جنگ کا دور نہیں ہے۔ جو مُسلح جنگ کی بات کرتے ہیں وہ خون خرابہ چاہتے ہیں ، بے گناہ افراد کو گرفتار کروا کر مروائے گے۔ اِس لیے اُن کے ہر عمل کی مخالفت کرنی چاہیے۔ اِن دانشوروں کا دعوی ہوتا ہے کہ مُسلح انقلابوں کا دور گُزر چُکا ہے اب عالمی صورتحال تبدیل ہو چُکی ہے۔ دنیا گلوبل ولیج بن چُکی ہے اِس لیے مُسلح جنگ کے بجائے عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں تبدیل کر کے انقلاب لایا جا سکتا ہے۔


ایسے عطائی دانشور جو رياست کی طرف سے ملنے والی اسائنمنٹ پر کام کرتے ہیں ، ویسے تو پوری دنیا اپنی مُٹھی میں کئے ہوتے ہیں لیکن بالکل سادی بات سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ “واقعی دنیا گلوبل ولیج ہوگی ، ضرور ہوگی لیکن ہمارے مسائل دوسرے حل نہیں کریں گے۔ درد ہمارے سَر میں ہے تو گولی بھی ہمیں کھانی پڑے گی۔ دنیا کے لوگ ہمارے بدلے گولی نہیں کھائیں گے”۔


رياست کی طرف سے ایسے دانشور اور پالتو تنظیمیں آپ کو انقلاب کی سائنس نہیں سمجھاتے بلکہ آپ کو رد انقلاب کے طرف لے جاتے ہیں۔ سائنس وہ ہوتی ہے جو خود کو حالات میں ثابت کرتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو رياست کی دلالی کرتے ہیں اور آپ کے ذہنوں کو بِگاڑتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو انقلابی قوتوں کو پراکسی کہہ کر کیڈرز اور عوام کو اُلجھاتے اور کنفیوز کرتے ہیں۔


پراکسی ہونے کا الزام صرف چند اِنتہائی گھٹیا اور بے ضمیر لوگ ہی لگا سکتے ہیں۔ جو پالتو تنظیمیں اور دانشور ، سندھ کی محبِ وطن انقلابی قوتوں پر پراکسی ہونے کا الزام لگاتے ہیں وہ دراصل خود پنڈی اور اسلام آباد کے پراکسی اور دلال ہیں۔

سوال : ایس آر اے بلوچ آزادی پسند تنظیموں کے اتحاد براس کا بھی اتحادی ہے۔ اِس اتحاد کا سندھ اور بلوچستان کی مجموعی قومی مزاحمت پر کیا اثرات مُرتب ہونگے؟

سید اصغر شاہ: “تُمہارا دوست کون ہے اور دشمن کون ہے”؟ قومی آزادی کی جنگ میں اِس نُقطے کی زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ دنیا کے تمام انقلابی قوتوں نے “مُشترکہ دشمن” کے خلاف “مُتحدہ محاذ” یا “مُتحدہ اتحاد” تشکیل دے کر اپنی مُزاحمتی جنگ جاری رکھی اور کامیابی حاصل کی ہے۔ ایس آر اے نے بھی ایک ذمہ دار تنظيم کی حیثیت سے اِس نُقطے کو آگے رکھتے ہوئے 26 جولائی 2020ع میں بلوچ آزادی پسند تنظیموں بی ایل اے ، بی ایل ایف ، بی آر اے اور بی آر جی کے اتحاد “براس” کے ساتھ اتحاد کیا۔


یہ اتحاد یقیناً جتنا ہم دونوں قوموں کے لئے اُتساہ اور خوشی کا سبب بنا ہے وہاں ہمارے “مُشترکہ دشمن پنجاب” کے لیے بھی پریشانی اور تکلیف کا باعث بنا ہے۔ اِس کے علاوہ پوری دنیا میں بھی ایک اچھا پیغام اور تاثر گیا ہے۔


ویسے تو جغرافیائی ساتھ ہونے کے سبب ہم سندھیوں کا صدیوں سے بلوچوں کے ساتھ تاریخی ، سیاسی ، تہذیبی اور ثقافتی رشتہ ناتہ رہا ہے لیکن موجودہ وقت میں “قومی آزادی” ایک ایسا مُشترکہ نصب العین ہے جو نہ صرف دونوں برادر اقوام کو آپس میں اور بھی یکجا کرے گا بلکہ اِس خطے کے اندر اور عالمی سطح پر بھی اُس کے دیرپا اثرات اور نتائج برآمد ہونگے۔


سندھ اور بلوچستان اپنی جغرافیائی ، جیو پولیٹیکل لوکیشن اور بدین سے لیکر گوادر تک اپنی وسيع و عریض سمندری پٹی کی وجہ سے شروع سے ہی ظالم جابر وحشی اور قبضہ گیر قوموں کی لالچ ، حوس اور حملوں کا شکار ہوتے رہے ہیں۔


آج وہی کردار اپنی پوری فوجی طاقت ، دہشت اور وحشت کے ساتھ پنجاب سامراج ادا کر رہا ہے۔ جو چائنا کے ساتھ مُشترکہ سی پیک منصوبے کے نام پر ہم دونوں مظلوم اقوام کی جغرافیہ ، سمندری پٹی اور جزائر ، توانائی کے وسائل اور ذرائع اور ذراعت پر ہمیشہ اور مُستقبل قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔


بحیثیت ایک ذمہ دار تنظيم اور اتحاد کے ہم پوری صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور حکمت عملی بھی موجود ہے۔ سامراجی اور قبضہ گیر طاقتیں ہمیشہ بندوق اور طاقت کی زبان سمجھتے ہیں۔ ہماری مُشترکہ کوشش ہے کہ اپنی پوری طاقت اور قوت کو یکجا کر کے ایک تو اپنے اپنے علاقوں میں کارروائیوں کو تیز کریں اور دوسرا یہ کہ مُشترکہ حکمت عملی تشکیل دے کر مُشترکہ اہداف کو نشانہ بنائیں۔ تاکہ سامراجی قبضے کو ختم کر سکیں اور اپنے تاریخی وطنوں کو آزاد کر سکیں۔

سوال : علاقائی اور عالمی صورتحال کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟

سید اصغر شاہ: دنیا بھر میں رونما ہونے والے واقعات اور تبدیلیاں پوری دنیا کی طرح سندھ کو بھی متاثر کرتی رہی ہیں اور مستقبل میں بھی کرتی رہیں گی۔ کیونکہ سندھ اپنی جیو پولیٹیکل اور اسٹریٹیجک پوزيشن ، لوکیشن اور سمندری گزرگاہ کی وجہ سے جنوبی ایشیا کے اس خطے میں ایک خاص اہمیت کا حامل رہا ہے۔


دنیا جو پہلے دو بلاکوں سرمایہ دارانہ اور کمیونسٹ میں تقسیم تھی ، سرد جنگ کے خاتمے اور سویت یونین کے انہدام کے بعد یونی پولر(یک قطبی) ہو گئی۔ جس کی قیادت امریکہ اپنے دیگر مغربی اتحادیوں کے ساتھ مل کر کر رہا تھا۔ امریکہ نے پوری دنیا پر اپنا تسلط اور اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے دنیا کو نیو ورلڈ آرڈر دیا۔ لیکن اس دوران چین جیسی دیو ہیکل طاقت اور القاعدہ جیسی مذہبی اِنتہا پسند تنظیم بھی ابھر کر سامنے آئے۔ جن کا عروج امریکہ اور اس کے نیو ورلڈ آرڈر کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر القاعدہ کے حملے ، عراق اور افغانستان میں امریکی حملے اور افغانستان میں 20 سالہ امریکی موجودگی اور اس کے انخلاء کے دوران چین نے اپنی تمام تر سیاسی ، اقتصادی ، تکنیکی اور فوجی طاقت کو یکجا اور متحرک کر کے ایک عالمی پاور اور قوت کی صورت میں ابھر کر سامنے آیا ہے۔ جو اپنے اقتصادی منصوبوں اور سفارت کاری کے ذریعے دنیا کو ایک نیا ورلڈ آرڈر دینے کی پوزیشن میں ہے۔ ظاہر ہے کہ چین کا اس مقام پر پہنچنا امریکہ اور مغرب کے ممالک کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔


گزشتہ پندرہ برسوں سے عالمی سیاست کی دو اہم ترین طاقتوں امریکہ اور چین کے درمیان ایک نئی سرد جنگ جاری ہے۔ جس جنگ نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ چین امریکہ کے نیو ورلڈ آرڈر کے مقابلے میں سیاسی ، اقتصادی ، تکنیکی ، فوجی اور سفارتی بنیادوں پر اپنا متبادل ورلڈ آرڈر دے کر دنیا کو اپنے ماتحت چلانے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر جہاں ایک طرف امریکہ انڈو پیسفک ریجن میں QUAD اور AUKUS جیسے اتحاد بنا کر چین کے راستے روکنے کی کوشش کر رہا ہے وہیں دوسری طرف چین ، روس اور شمالی کوریا کے ساتھ نئے اتحاد بنا کر آگے بڑھ رہا ہے۔ بلکہ حال ہی میں چین دو تلخ حریف ممالک ایران اور سعودی عرب کو اکٹھا کر کے مشرق وسطی میں ایک نئے اتحاد کی بنیاد رکھنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دنیا تیزی سے ایک بار پھر بلاک سیاست میں داخل ہونے کی طرف بڑھ رہی ہے۔


ایشیا کا خطہ جو دنیا میں اپنی ایک خاص اہمیت رکھتا آيا ہے۔ جہاں چین ، بھارت اور جاپان جیسے طاقتور ممالک موجود ہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جنوبی ایشیا کا یہ خطہ اور بحیرہ جنوبی چین ميدان جنگ بننے جا رہے ہیں۔ کیونکہ امریکہ کی جانب سے یوکرین کی جنگ میں روس کو انگیج کرنے اور مشرق وسطی کے عرب ممالک کو اپنا اتحادی یا غیر جانبدار بنانے کے بعد امریکہ کی ساری توجہ جنوبی ایشیا کے اس خطے پر ہے۔


جنوبی ایشیا کے اس خطے میں دو اہم ملک چین اور بھارت ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان ویسے تو تجارت اور درآمد و برآمد کسی حد تک ہوتی رہی ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی مسئلے اور دیگر معاملات پر دشمنی اور تناؤ برسوں سے جاری ہے۔


چین کا OBOR منصوبہ ہو یا بحیرہ جنوبی چین میں اجارہ داری کا معاملہ ہو ، جہاں امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کے لیے بڑے چیلنجز کا باعث ہیں وہاں بھارت کے لیے بھی درد سر بنتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں 10 ستمبر 2023 کو ہونے والے G-20 اجلاس میں ہندوستان اور سعودی عرب نے امریکہ اور یورپی ممالک کی رضا مندی سے ایک نیا پراجیکٹ “انڈیا-مڈل ایسٹ-یورپ اکنامک کوریڈور ” پیش کیا ہے۔ جو انڈیا ، مشرق وسطی اور یورپ کو سمندر ، روڈ اور ریلوے لائن کے ذریعے منسلک کرے گا۔ ظاہر ہے کہ جس طرح یہ راہداری انڈیا اور اس کے اتحادیوں کے لیے جتنی بڑی حاصلات اور کامیابیوں کا سبب بنے گی اتنا ہی چین کے لیے بھی تشویش اور چیلنج کا باعث بنے گی۔ لازمی چین اس پورے معاملے پر خاموش نہیں رہے گا اور اس راہداری کو ناکام بنانے کے لیے جوابی حکمت عملی اور منصوبہ بندی ضرور کرے گا۔ جس سے محسوس ہو رہا ہے کہ اس خطے کے اندر ایک نئی سیاسی ، اقتصادی ، تکنیکی اور عسکری کشمکش اور کشیدگی جنم لے گی۔


موجودہ تمام واقعات اور مفادات کے ٹکراؤ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان جو جنوبی ایشیا کے اس خطے میں واچ ڈاگ کا کردار ادا کرتا رہا ہے اور جو پہلے سے ہی مظلوم اقوام کا قبرستان بنا ہوا ہے اس پر بھی اس کے بہت خطرناک اثرات مرتب ہوں گے۔


پاکستان کو ایک طرف اپنی ناکام داخلی اور خارجی پالیسیوں کی وجہ سے سیکورٹی کے سنگین مسائل کا سامنا ہے تو دوسری طرف سیاسی ، معاشی اور عدالتی بحرانوں نے اس ملک کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود پاکستانی ریاست اپنی دوغلی پالیسیوں اور مذہبی انتہا پسندانہ حرکتوں اور سازشوں سے باز نہیں آتی۔ افغانستان ہو یا ایران ، پاکستان بالواسطہ یا بلاواسطہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مداخلت ، بغاوت اور فتنہ بازی کو جاری رکھتا آيا ہے اور کشمیر سے دہلی تک فتح کرنے کے احمقانہ خواب دیکھتا رہتا ہے۔ یہ پاکستانی ریاست کی اپنی ناکام اور ناقص پالیسیاں ہی ہیں جن کی وجہ سے پورا ملک بالخصوص سندھ اور بلوچستان جل رہا ہے۔ سندھ میں بڑے پیمانے پر منظم منصوبہ بندی کے تحت قبضے اور جبر کو تيز کر دیا گیا ہے اور آزادی پسند نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں اور شہادتوں کا سلسلہ تیز کر دیا گیا ہے۔


غلام قوموں میں سیاست طاقت کا نام ہوتا ہے۔ جو طاقتور اور قابل ہوتا ہے وہ ہی اپنی قومی آزادی کے مقصد کو حاصل کر سکتا ہے اور جو کمزور اور نا قابل ہوتا ہے دنیا اسے کچل کر ختم کر دیتی ہے۔ اس لیے ہم سندھیوں کو مزاحمت کا راستہ اختیار کر کے آگے بڑھنا ہوگا۔ تب ہی اس خطے میں اپنے وطن اور طاقت کو قائم رکھ سکتے ہیں۔

سوال: آخر میں آپ سندھی قوم اور نوجوانوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

سید اصغر شاہ: سندھ باسیو اور میرے نوجوان ساتھیو- آج کا دور سائنس ، ٹیکنالوجی اور جدید عُلوم کا دور ہے۔ بَھلے آپ اُن جدید عُلوم سے روشناس ہوں اور اپنی زندگیوں میں کامیابیاں اور کامرانیاں حاصل کریں۔ لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ آپ کی زندگیاں ، علم ، عقل ، شعور اور صلاحیتیں آپ کے پاس اپنے وطن اور قوم کی امانتیں ہیں۔جب وطن ہے تو ہم ہیں اور جب وطن ہاتھوں سے نِکل گیا تو ہم کُچھ بھی نہیں ہیں۔ شاہ بھٹائی نے جب مارئی ، عمر بادشاہ کے قید میں تھی تو اپنے شعر کے ذریعے


کِتنی نہ بہترین بات کَہی تھی کہ؛
سُونھَن وِہايَم سومرا ، مَيرو مُنہن ہِيوم
وَہہ تِتِ پَيوم ، جِتِ ھَلہ ناھ حُسن رِي.
( ترجمہ: اے بادشاہ میں تمہارے قید و بند(غلامی) کی وجہ سے اپنا حُسن(آزادی) گنوا چُکی ہوں۔ مُجھے لوٹ کر وہاں جانا ہے جہاں حُسن(آزادی) کے بغیر چَلا نہیں جاتا)۔


اِس لیے ہمیں اپنے وطن اور قوم کے سامنے جوابدہ اور ذمہ دار ہو کر ہر حال میں اپنے اپنے حصے کا بھرپور کردار ادا کرنا ہے۔
تاریخ میں سندھی قوم پہلی اور آخری قوم نہیں ہے جو قومی غلامی کی اِس بدترين صورتحال سے دوچار ہے۔ ماضی میں ایشیا ، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں بھی قومیں غلام ہوئی ہیں۔ لیکن اُنہوں نے اپنی حکمت ، دانائی ، ہمت ، جُرات ، بہادری اور لامتناہی قربانیوں سے اپنی آزادیاں حاصل کی ہیں اور آج وہ آزاد اور خوشحال زندگیاں بسر کر رہے ہیں۔


یقیناً ہم بھی آزاد ہوں گے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ہم اپنے مضبوط جذبے ، ارادے اور حوصلے کے ساتھ اپنے وطن ، قومی آزادی کے فِکر اور مُزاحمت کے ساتھ کندھے سے کندھا مِلا کر کھڑے ہو جائیں۔


ایس آر اے آپ کی اپنی تنظیم ہے اور آپ میں سے ہی ہے۔ اِس میں زیادہ سے زیادہ شامل ہو کر اُسے مزید مضبوط اور منظم بنائیں اور مُزاحمتی جنگ کو تيز کرتے ہوئے اپنی قومی آزادی کے حصول کو یقینی بنائیں۔ تاکہ دنیا کی دیگر اقوام کی طرح ہم بھی ایک آزاد ، خود مختار ، خوشحال ، باوقار اور شاندار طریقے سے رہ سکے۔


٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here