بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں بلوچ جبری لاپتہ افراد اور بلوچ شہدا ء کو انصاف کی فراہمی کے لیے قائم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ میں ایک نامعلوم عورت نے ہنگامہ آرائی کی اور توڑ پھوڑ کیا۔
ماما قدیر بلوچ نے میڈیا کو بتایا پورے سال وی بی ایم پی کے احتجاجی کیمپ کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور 30 دسمبر سال کے آخری دن بھی ریاستی پے رول پر کام کرنے والی ایک خاتون کو ہمارے احتجاجی کیمپ کو سبوتاژ کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔اس نے یہاں آکر ہنگامہ آرائی کی ، جبری لاپتہ افراد کی تصاویر پھاڑے ، توڑ پھوڑ کی، کیمپ میں بیٹھے خواتین اور مردوں کے ساتھ بدتمیزی کی اور جھگڑے کا ماحول پیدا کیا۔
انھوں نے کہا یہ طوفان بدتمیزی دیکھ کر اردگرد موجود لوگ حیران ہوئے اور عدالت روڈ پر ایک مجمع اکھٹا ہوگیا۔ پہلے ایک مہینے کے اندر دن اور رات میں چار دفعہ احتجاجی کیمپ کو جلایا گیا اور اب یہ اوچھی حرکتیں کی جا رہی ہیں۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا گوکہ یہ حرکتیں چوری چھپے ، اپنے ایجنٹوں اور خفیہ اہلکاروں کے ذریعے کیے جا رہے ہیں لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ کون کر رہا ہے اور کیوں۔ بلوچستان میں جبری گمشدگی ایک انسانی بحران کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ہر بلوچ گھر سے جبری گمشدگیاں ہوئی ہیں ۔ریاستی فورسز لوگوں کو اغواء کرکے جبری لاپتہ کرنے کے بعد سمجھتے ہیں کہ اس پر احتجاج کرنا بھی جرم ہے اور اس پر ان کی یہ حرکتیں ہیں کہ مظاہرین پر ڈنڈے برساتے ہیں اور احتجاجی کیمپ جلاتے ہیں۔
انھوں نے خبردار کیا جبری گمشدگیوں کے نتیجے میں مزید احتجاج ہوگا، زیادہ بلند اور واضح آوازیں اٹھیں گی ، انھیں بند کرکے ایک ہی طریقہ ہے کہ جبری گشمدگیوں کا سلسلہ روکا جائے ، کیمپ جلانے سے ، اپنے ایجنٹس بھیج کر ہنگامہ آرائی کرنے سے یہ مسائل حل نہیں ہوں گے، ریاست ہمیں چپ نہیں کراسکتی۔