شہیدچیئرمین غلام محمد بلوچ-تحریر: محمد یوسف بلوچ ,ایک قسط وار سلسلہ

0
584


قائد انقلاب شہید غلام محمد بلوچ کی سوانح عمری اور سیاسی بصیرت کا ایک طائرانہ جائزہ
(…..ایک قسط وار سلسلہ…..) قسط۔12
تحریر: محمد یوسف بلوچ پیش کردہ : زرمبش پبلی کیشن

”سوانح حیات قائدِ انقلاب شہید چیئر مین غلام محمد بلوچ “بلوچستان کے جہد آزادی کے عظیم رہنما شہید چیئر مین غلام محمد بلوچکی سوانح عمری، جدجہد،فکرو نظریات اورسیاسی بصیرت پر مبنی یہ ایک تاریخی و دستاویزی کتاب ہے جسے ان کے بھائی محمد یوسف بلوچ نے تحریر کیا ہے۔ یہ کتاب بلوچ جدو جہد آزادی کے کاروان میں شامل افراد کیلئے معلومات و دلسچپی کا ایک بہتر ذریعہ ہے ۔ ہم بلوچ قومی تحریک آزادی کے جہد کاروں سمیت بلوچ حلقوں کیلئے اس کتاب کو قسط وار شائع کرنے کا اہتمام کررہے ہیں تاکہ وہ شہید چیئرمین غلام محمد بلوچ کی سیاسی بصیرت، فکرو نظریہ اور تجربت سے استفادہ کرسکیں۔ یہ کتاب ہم ”زرمبش پبلی کیشن“کی شکریہ کے سا تھ شاع کر رہے ہیں۔(ادارہ سنگر)

(قسط12- )

ضمانت پہ رہائی:۔
شہید آصف بلوچ کو یہ خوف لاحق تھا کہ ریاست انہیں جیل میں نقصان نہ پہنچائے یا پھر سے لاپتہ نہ کردیں اسی لیے انہوں نے وقت ضائع کیے بغیر ضمانت کے کاغذات مکمل کرنے کے بعد عدالت میں پیش کرکے شہید غلامحمد بلوچ اور شہید شیر محمد بلوچ کی ضمانت پہ رہائی کو ممکن بنایا۔
لہذا10 اکتوبر2007ء کو آپ اور شہید شیر محمد بلوچ تربت سے رہا ہوئے۔ طویل عرصہ زندان اور ریاستی تشدد کے بعدجب آپ تربت سے اپنے آبائی گاؤں مند سورو پہنچے تو پارٹی کارکنوں اور گھر والوں نے پھول، پتیوں سے آ پ اور شیر محمدبلوچ کا پرجوش انداز میں استقبال کیا لیکن گھر پہنچے سے قبل آپ نے تمپ میں شہید خالد بلوچ اور مند میں شہید دلوش بلوچ کے مزاروں پہ حاضری دی۔ دوران حراست تشدد کی وجہ سے آپکی جسما نی حالت انتہائی خراب تھی ٹانگوں میں حد درجہ تکلیف اور کانوں میں بھی تکلیف تھی جس کی وجہ آپ کو سننے میں مشکلات پیش آرہی تھیں۔ لیکن ان تمام تکالیف کے باوجود آپ کے حوصلے چلتن سے بلند تھے جو حقیقتاً ایک لیڈر کی خاصیت ہوتی ہے۔
جب آپ اپنے گھر میں داخل ہوئے تو وہاں موجود خواتین نے ہاروں اور پھولوں سے آپ قائدکا والہانہ استقبال کیا۔آپ کی بھتیجی بانک خیریہ بلوچ نے آپ چیئرمین شہید کے کندھوں پہ بلوچی سیاہ آبریشمی چادر پر رکھدیا۔بعد میں یہ چادر اتنا مشہور ہوا کہ اسے بلوچ جہدِ آزادی کے ہمنواہ استعمال کرنے لگے۔اس آبریشمی سیاہ رنگ کے چادر پر سرخ اورسبز رنگ کے پٹے تھے جہاں سیاہ رنگ غلامی، سرخ رنگ جدوجہد اور سبز رنگ آزادی اور خوشحالی کی علامت اور پہچان تھی۔سیاہ رنگ کا یہ چادر آپ کی شہادت تک آپ کے ساتھ رہا اس حوالے بانک حیریہ کا کہنا ہے جس کا ذکر انہوں نے اپنے ایک مضمون میں اس طرح کیا ہے کہ ” میں شہید چیئرمین کو جب سیاہ ریشمی چادرپہنارہی تھی تو مجھ کو اپنے عظیم لیڈر کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک دیکھنے کو ملا۔مجھے ایسا لگا کہ کاکا (شہید غلام محمد بلوچ) مجھ سے کچھ کہنا چارہے تھے پر اظہار کرنہیں پارہے تھے وجہ کیا تھی اس وقت میں خودسمجھ نہیں سکی لیکن آخر میں باتوں کی جگہ آنکھوں میں نمی دیکھ لی اتنا میں جان گئی کہ یہ تشکر اور مہر و محبت کا رنگ ہے جس کے ذریعے انہوں نے اظہار کیا۔” آگے چل کر حیریہ بلوچ لکھتی ہے کہ”کاکا (شہید غلامحمدبلوچ) نے میری دی ہوئی اس سیاہ آبریشمی چادر کو بلوچ قومی ننگ و ناموس،بقاء اور بلوچ ماں، بہنوں کی غیرت کی پاسداری سمجھ کر آپنے لہو مبارک سے رنگتے رنگتے اپنا شہیدی پوشاک بنادیا اور بلوچ قومی نشانی سے منسلک کرکے رہتی دنیا تلک بھائیوں اوربزرگوں کے کندھوں کی زینت بن بنادیا۔ ”

ایک یادگار دیوان:۔
مجھے یہ بھی یاد ہے کہ آپ (شہید غلام محمدبلوچ)رہا ہوکر گھرآئے تو اکثرعلاقے کے کچھ لوگ اور رشتہ دار آپ شہید سے ملنے آتے تھے جن میں سے اکثر آپ سے مخاطب ہوکر کہتے کہ غلام محمد اب آپ اپنا انقلابی اور پاکستان مخالف سیاست اور سیاسی سرگرمیاں چھوڑ دیں کیونکہ اس عمل سے تمہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا اور نہ ہی ریاست تمہیں دوبارہ زندان سے واپس آنے دیگا یہ آخری موقع تھا جو ریاست نے تمہیں دے دیا اب انقلاب کی باتیں کرنا چھوڑ دو اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔ یہ بات تم اچھی طرح جان چکے ہو کہ سرکار کے ساتھ ساتھ تمہارے پرانے سیاسی ساتھی (نیشنل پارٹی کے قائدین) تمہاری مخالفت میں آخری حد تک جاسکتے ہیں۔بلوچ قوم اب تک شعوری حوالے سے انقلاب کے لیے تیار نہیں اور آپ کا یہ عمل فقط آپ کو نقصان ہی پہنچا سکتا ہے۔ آپ چاہے لاکھ کوشش کریں آپ اس قوم کو تیار نہیں کرسکتے کیونکہ اس قوم میں آزادی کی راہ پہ چلنے کی ذرہ برابر سکت نہیں۔آپ شہیدنے مسکراتے ہوئے کہا کہ” آپ لوگوں کی باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ لوگوں کو اپنے قوم کے بارے میں جانکاری نہیں اور نہ ہی یہ احساس ہے کہ غلامی سے نجات کے لیے کن راہوں کا انتخاب عمل میں لایا جاتا ہے۔ میں یہ جانتا ہوں کہ یہ راستہ آگ کا دریا ہے اس میں چین و سکون نصیب نہیں،ہر موڑ پہ سختیاں اور ظلم سہنا پڑے گا لیکن آپ لوگوں نے کبھی یہ سوچا ہے کہ غلامی کے خلاف اگر آج ہم اٹھ کھڑے نہیں ہونگے تو آنے والے دنوں میں ہمارے آباؤ اجداد کی اس گلزمین کا کیا ہوگا،آیا یہ وطن جس کانام لیتے ہوئے ہم فخر سے اپنا سراونچا کرتے ہیں یہ ہمارا رہیگا، اگر ہم سب یوں ہی چپ سادھ لیں تو آنے والی نسلیں ہمیں کن ناموں پکاریں گے،کبھی سوچا ہے کہ اگر ہم اس قوم اور وطن کا حق ادا کرنے کی بجائے اپنی ذات میں مگن رہیں تو تاریخ ہمیں کس مقام پہ رکھے گا؟ میں یہ دھاوا بھی نہیں کرتا کہ آج پوری قوم جدوجہد کے لیے تیار ہے لیکن اتنا میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ قوم کی ایک بڑی اکثریت قابض سے مادر وطن کی آزادی کی خواہش رکھتی ہے لیکن ان کی اس خواہش میں مزید جوش، جذبہ اور ولولہ پیدا کرنے کے لیے ہمیں ہی کچھ کرنا ہوگا، کام کچھ ایسا ہو کہ قوم فقط جذبات اور خواہشات کی بنیاد پہ آگے نہ بڑھیں بلکہ اس میں نظریہ اور فکر کا رنگ نمایاں نظر آجائے تب دیکھنا کہ یہ قوم آنے والے دنوں میں کس مقام پہ کھڑا ہوگا۔آپ لوگوں کی ان مایوس کن باتوں سے میں مایوس نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ تو آپ لوگ بھی جانتے ہو کہ بلوچ جہد آزادی چاہے جس دور میں بھی شروع ہوا ہے اس میں قومیت کا عنصر کم دیکھنے کو ملا لیکن آج حالات یکسر مختلف ہیں۔البتہ یہ ایک حقیقت ہے اور آپ لوگ مطابق ماضی کی تحریکوں کو دیکھ رہے ہو جہاں بلوچ قوم،قومی نہیں بلکہ علاقائی یا شخصیات کی وجہ سے تحریک کا حصہ بنتے رہیں۔آج ہم ماضی کے تجربات سے گزر کر جہاں ہمارا سیاسی نظریہ علاقائی اور شخصیات کی بھینٹ چڑھتا رہا ہم اس روایتی حصار کو توڑنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔آج دنیا جانتی ہے کہ اکیسوی صدی کی بلوچ تحریک آزادی مکمل قومی رنگ میں رنگا ہے جہاں شخصیات کا اثر زائل ہورہا ہے اور بلوچ تحریک آزادی آج اداروں کی توسط سے اپنے فیصلے کررہی ہے جو یقیناً بلوچ قوم کی کامیابی ہے۔آپ لوگوں نے دیکھا کہ قابض ریاست کے ہاتھوں میرے لاپتہ ہونے کے بعد بھی تحریک نہ صرف اسی روانی سے جاری رہا بلکہ اس میں مزید نکھار پیدا ہوگیا۔میں جب زندان میں تھا تو دشمن کی حالت دیکھ کر میرے حوصلے مزید بلند ہوتے گئے جہاں وہ بلوچ تحریک کی کامیابی کو دیکھ کر مکمل حواس باختہ ہوچکاہے کیونکہ ان کی باتوں سے یہ ظاہر ہورہا تھا کہ بلوچ تحریک جس رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے اور اگر تحریک کا یہ تسلسل برقرار رہا تو عین ممکن ہے کہ نہ صرف بلوچستان آزاد ہوگا بلکہ بلوچ قوم کی اس تحریک سے پاکستان کا اپنا وجود بھی مٹ جائیگا۔ میں آج اس قدر پر امید ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ میں بلوچ قوم اور دشمن دونوں کی حالت دیکھ چکا ہوں اور آپ لوگوں کی ناامیدی یا مایوسی کی وجہ یہ ہے کہ آپ لوگ اپنوں سے دور ہو،آپ لوگوں نے کبھی بلوچ قوم کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی، اگر آپ لوگ اس کارواں میں شامل ہوکر فقط ایک بار بلوچ قوم کے دلوں میں جھانکنے کی کوشش کروگے تو مجھے کامل یقین ہے کہ پھر آپ لوگوں کوکبھی جہد آزادی سے بیزاری کا اظہار کرنے کی نوبت پیش نہیں آئے گی۔
میں کون ہوں،میں نے کیوں اس راہ کا انتخاب کیا، کیونکر میں موت کو دعوت دے رہا ہوں؟ اس محفل میں ایسے افراد بھی تشریف فرماء ہیں جو مجھے بچپن سے جانتے ہیں، جہاں میں ہوش سنبھالنے سے پہلے آزادی کی خواہش اپنے دل میں لیے پھرتا رہا ہوں آج جب بلوچ قوم میں احساس غلامی دیکھ رہا ہوں تو میں کیسے اپنی اس خواہش کو ٹھکرا سکتا ہوں جس کی آرزو کے لیے ساری زندگی میں تڑپتا رہا، آج جب مجھے میرا مقصد مل چکا ہے تو آپ لوگوں نے کیسے یہ سوچا کہ غلام محمد بلوچ آزادی کی راہ سے فرار اختیار کرسکتا ہے۔ میں آپ لوگوں پہ واضح کرتا چلوں کہ یہ ناممکن ہے کہ اب میں حصول آزادی کے مقصد سے ایک گام بھی پیچھے ہٹ جاؤ۔ اب میں فکری اور نظریاتی طور پہ اس قدر تیار ہوچکا ہوں جہاں سے موت بھی میرے ارادوں کو ٹھال نہیں سکتا۔وطن کے عشق اور قوم سے مہر و وفا نے مجھے میری منزل دکھا دی ہے اور میں اس راہ پہ چل کر یا تو اپنی منزل پہ پہنچ جاؤنگا یا قوم اور وطن کے لیے شہید حمید، شہید فدا جان، شہید بابو نوروز اور دیگر قومی شہداء کی طرح اپنی جان قربان کردونگا لیکن قوم،وطن اور شہیدوں کے بہنے والے لہو سے جنہوں نے اس سرزمین کو سیراب کیا ہے بے وفائی کرنے کا مرتکب نہیں ہوسکتا۔میری زندگی کا مقصد آپ لوگوں پہ آشکار ہوچکا ہے میں آپ لوگوں پہ زبردستی یہ مسلط کرنا نہیں چاہتا کہ آپ لوگ بھی میرے ساتھ چل کر قومی فرض ادا کریں کیونکہ راہ انقلاب میں فیصلے زبردستی کسی کے سر مسلط نہیں کیے جاسکتے اس حوالے میرا اور میرے تمام نظریاتی دوستوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ بلوچ قوم پہ طاری جمودی کیفیت کو توڑنے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ لوگ متحرک ہوکر اپنی رضا سے راہ آزادی میں ہمارا ہمسفر بنیں۔آج اگر میں یا میرے دیگر ساتھی جذبات کی بنیاد پہ آپ لوگوں کو قائل کریں بھی تو ایسے جذبات کو سرد ہوتے دیر نہیں لگتی۔اگر کسی کو اس راہ کا مسافر بننا ہے تو وہ فکری اور نظریاتی طور پہ خود کو مسلح کریں نہ کہ فقط جذبات کی رو میں بہہ جائے کیونکہ فکری پختگی آپ میں توانائی پیدا کرتی ہے جس کی وجہ سے آپ کبھی بھی گوں مگوں کی کیفیت میں مبتلا نہیں ہونگے اور آپ کا یہی رویہ آپ کی کامیابی کی نوید ثابت ہوگی۔ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ موت کا مزا تو سب کو چکنا ہے تو پھر کیوں نہ ہم ایسی موت کا انتخاب کریں جس سے کوئی بھی جب ہماری تاریخ نوشتہ کرنے لگے تو اسے قلم اس بات پہ مجبور کرے کہ قلم سے رواں ہونے والے الفاظ فقط سیاہ دھبے نہ رہیں بلکہ ان سے ایسی شعائیں نکلیں جن کی روشنی میں آنے والی نسلیں اپنی راہوں کا صحیح اتنخاب کرنے کے قابل ہوجائیں۔تاریخ بہت بے رحم ہوتی ہے جہاں مورخ کردار کو دیکھ قلم میں وجدان پیدا کرتی ہے،اگر ہمارا کردار غلط ہوگا تو قلم کی وہ سیاہی ہمارے لیے سیاہ دھبہ کی صورت میں ظاہر ہونگے اور اگر ہم اپنے عمل اور کردار سے مورخ کو متاثر کرینگے تو قلم کی وہ سیاہی آنے والوں کے لیے صبح کی نوید ثابت ہوگی اور اگر کوئی اس خوف میں مبتلا ہے کہ غلام محمد بلوچ یا کسی اور کے جانے سے یہ تحریک جمود کا شکار ہوگا تو یہ اس کی خام خیالی ہوگی کیونکہ وہ تحریکیں جن میں قوم کے فیصلے فرد کی بجائے اس کے ادارے کریں وہ ہمیشہ سماج میں متحرک رہتے ہیں اور آج میں فخریہ اس بات کا اظہار کرسکتا ہوں کہ بلوچ جہد مکمل ادارتی صورت میں قائم ہے جہاں کسی غلام محمد کے جانے سے اسے ختم کرنا اپنی جگہ بلکہ کمزور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
میں اس بات کا اظہار کرچکا ہوں کہ قابض ریاست ہر نظریاتی کارکن کو راہ سے ہٹانے کے لیے پوری قوت صرف کریگا لیکن جب تحریک میں ادارے منظم ہوں تو قبضہ گیر کی ایسی پالیسیاں ریت کے دیوار ثابت ہونگے۔اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات افشاں ہوتی ہے کہ کوئی قابض زیادہ عرصے تک کسی ایسی قوم کو غلام نہیں بناسکتا جنہوں نے اپنی راہوں کا تعین کرنے میں اپنی ذات کو پسِ پشت ڈال دیا ہو جہاں اس کاجینا اور مرنا فقط مقصد کے لیے ہو اور آج بلوچ قوم کی ایک بڑی اکثریت میں احساس غلامی دیکھنے کو ملتی ہے جو اس بات کی نشانی ہے کہ بلوچ آج جمودی کیفیت میں مبتلا نہیں بلکہ اس قوم نے اپناآج اپنے کل کے لیے قربان کرنے کے ہنر سے آشنائی حاصل کرلی ہے۔یہی آج بلوچ تحریک کی کامیابی ہے جس سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا۔”

شہید بالاچ مری کی شہادت:۔
ماہ نومبر میں بلوچ قوم کو شہید اکبر خان کی شہادت کے بعد ایک عظیم سانحہ سے ا س وقت گزرنا پڑا جب شہید با لاچ مری کی شہادت کی اطلاع آئی۔شہید بالاچ مری20 نومبر2007ء کو سرلٹھ کے پہاڑوں میں آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔شہید اکبرخان کی شہادت کے بعدشہید غلام محمد بلوچ کو میں نے سب سے زیادہ تکلیف میں اس وقت دیکھا جب آپ کو شہید بالاچ مری کی شہادت کی اطلاع دی گئی۔میں آپ کے ساتھ تو نہیں تھا لیکن میرا رابطہ ہر وقت رہتا تھا بالاچ مری کی شہادت کے بعد آپ شہید چیئرمین سے جب میں نے بات کی تو مجھے یہ اندازہ ہوا کہ اس وقت آپ کس کرب سے گزررہے ہیں۔اس دوران آپ نے کہا کہ با لاچ مری کی راہ پر چلتے ہوئے بلوچ آزادی کا علم بلند رکھیں گے۔
آزادی کے علم کو بلند رکھنے کے لیے آپ نے شہید بالاچ مری کی شہادت کے بعدپارٹی کارکنوں کو اپنے کام میں مزید تیزی لانے کا کہا تاکہ عوامی سطح پہ قومی تحریک کے حوالے سے زیادہ آگاہی کے پروگرام شروع کیے جائیں۔
جون2008ء میں آپ نے نہ صرف پارٹی کے سنیئر دوستوں کے ساتھ بلکہ اخباری بیان میں یہ انکشاف کیا کہ قبضہ گیر ریاست اور اس کے خفیہ ادارے مجھے سیاسی جہد سے ہٹانا چاہتے ہیں اس لیے گرفتار کیا گیا۔آپ نے دوستوں سے کہا کہ ممکن ہے کہ وہ مجھے قتل کردیں لیکن آج ہم بلوچ قومی تحریک میں بلوچ نیشنل موومنٹ کو ایک ایسی جماعت بنانے میں کامیاب ہوچکے ہیں جس کے ادارے انتہائی منظم انداز میں قومی جہد آزادی میں اپنی ذمہ داریاں نبھارہے ہیں۔پارٹی کی اس کارکردگی کی بنیاد پہ میں یہ واضح کرتا چلوں کہ بلوچ جہد آزادی کی یہ تحریک کسی فرد کے جانے سے کمزور نہیں پڑسکتا بشرطیکہ آنے والے دنوں میں آپ تمام دوست پارٹی اداروں کو اسی انداز میں یا وقت و حالات کے مطابق مضبوط کرتے چلے جائیں اگر ہمارے ادارے اسی طرح مربوط رہینگے تو آزادی کے حصول کیلئے یہ جد وجہد کامیابی سے منزل پہ پہنچ سکتی ہے۔آپ سب دوستوں کی محنت سے ہم یہ کوشش کرینگے کہ آنے والے مرکزی کونسل سیشن میں پارٹی میں اپنے کام میں مزید جدت لانے کی کوشش کی جائے اور تربیت کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا جائے جس سے تحریک اور پارٹی کو آنے والے دنوں میں لیڈرشپ کی کمی محسوس نہ ہو۔
2008ء پارٹی کا مرکزی کونسل سیشن:۔
انقلابیوں کی زندگی مقصد کے گرد گھومتی ہے، جہاں وہ اپنے عمل سے تاریخ رقم کررہے ہوتے ہیں۔جب ہم دنیا میں اقوام کی آزادی کی کامیاب تحریکوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کی لیڈرشپ کی کارکردگی اور معمولات زندگی ہمارے سامنے آتی ہے جہاں وہ اپنی زندگی کا محور فقط کام اور مقصد کو گردانتے ہیں جس کے لیے انہیں ہر وقت متحرک رہنا پڑتا ہے۔شہیدچیئرمین غلام محمد بلوچ بھی انہی عظیم ہستیوں میں سے ایک تھا جنہوں نے کبھی بھی خود پر جمود کی کیفیت طاری ہونے نہیں دیا۔ رہائی کے بعد بھی جب آپ کی صحت آپ کو آرام کرنے کا کہہ رہا تھا لیکن آپ نے اپنی ذات پہ مقصد کو ترجیح دی اور نکل پڑے راہ آزادی کا پیغام گھر گھر پہنچانے۔
اس دوران آپ (شہید غلام محمد بلوچ) نے پارٹی سرگرمیوں میں مزید تیزی لائی جہاں آپ نے بلوچستان کے مختلف علاقوں سمیت کراچی کا دورہ کیا۔آپ کو اس قدر متحرک دیکھ کر قبضہ گیر ریاست اور اس کے حواریوں کا حواس باختہ ہونا فطری عمل تھا۔ان حالات کو دیکھ کر ہمیں یہ خوف لاحق تھا کہ کہیں یہ عناصر شہید غلام محمد بلوچ کو نقصان نہ پہنچائیں۔شہید واجہ چیئرمین کو ان باتوں کا ادراک تھا کہ دشمن آج نہیں تو کل اسے جانی نقصان پہنچاسکتا ہے اسی لیے آپ شہید نے پارٹی کو ایسے خطوط پہ استوار کرنے کی کوشش کی کہ وہاں کسی لیڈر کے جانے سے پارٹی کی کارکردگی متاثر نہ ہو۔ اس دوران آپ نے مختلف علاقوں میں جہاں تک آپ کی رسائی ممکن ہوئی آپ نے تربیتی پروگراموں کے ساتھ ساتھ اداروں کو مضبوط بنیاد فراہم کرنے کی کوششیں کیں۔ایک مختصر عرصے میں ہنگامی دوروں کو مکمل کرنے کے بعد پارٹی کونسل سیشن کے انعقاد کا اعلان ہوا۔ جس کے لیے 13 تا15 جولائی2008ء کو کراچی شہر کا انتخاب کیا گیا۔
10 جولائی کو آپ نے تمام کونسلران کو کراچی پہنچنے کے لیے اخباری بیان جاری کیا تاکہ کونسل سیشن کامیابی سے ہمکنار ہو۔ آپ نے اپنے اس پیغام میں یہ بھی واضح کیا کہ بلوچ نیشنل موومنٹ کی جدوجہد آزاد بلوچ وطن کے لیے ہے۔ تمام منتخب کونسلران کے پہنچنے کے بعد بلوچ نیشنل موومنٹ کا مرکزی کا کونسل سیشن بیادشہید نواب نوروزخان کراچی ملیرپالاری باغ میں منعقد ہوا۔
اس پرآشوب دور میں جہاں دشمن کی بربریت اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی ایسے میں کونسل سیشن کا انعقاد بلوچ تحریک آزادی میں اس بات کی نشانی تھی کہ بلوچ قوم آزادی کی جدوجہد میں کامیابی کے لیے جمہوری جدوجہد کی اہمیت سے آگاہی حاصل کرچکی ہے۔ان حالات میں کونسل سیشن کے انعقاد کا سہرا آپ (شہیدغلامحمد بلوچ) اور آپ کے نظریاتی دوستوں کے سر جاتا ہے جنہوں اس عمل کو کامیابی سے اپنے منطقی انجام تک پہنچایا۔
آپ (شہید غلام محمدبلوچ)بلوچ نیشنل مومنٹ کے دوبارہ مرکزی صدارت کے عہدے پر اکثریتی رائے سے منتخب ہوئے،نائب صدر کے لیے ڈاکٹر امداد بلوچ کا انتخاب ہوا، جبکہ بلوچ نیشنل موومنٹ کے موجودہ چیئرمین واجہ خلیل بلوچ کا انتخاب بطور مرکزی سیکرٹری جنرل ہوا۔
کونسل سیشن سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے بلوچ نیشنل موومنٹ کے کردار کو سراہا۔اس حوالے سے آپ کا کہنا تھا کہ” آج اگرہم کامیابی سے منزل کی جانب رواں ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ اس میں بلوچ نیشنل موومنٹ کے کارکنوں کا کلیدی کردار رہا ہے جہاں انہوں نے اپنی محنت اور لگن سے بلوچ قومی تحریک کا پیغام ہر کوچہ و گدان میں پہنچانا فرض عین سمجھتے ہوئے اپنا کردار نبھایا ہے۔لیکن ہمیں ابھی مزید سفر کرنا ہے،یہ سفر ایک امتحان ہوگا ہم سب کے لیے اور اس امتحان میں وہی لوگ کامیاب ہوسکتے ہیں جن کے حوصلے بلند ہونگے۔ مجھے یہ یقین ہے کہ بلوچ نیشنل موونٹ کے کارکنان جو کہ پچھلے پانچ سالوں سے اس تحریک کی کامیابی کے لیے سرگرم ہیں اسے منزل تک پہنچاکے دم لینگے۔ ہمارا تعلق جدید سے دور سے ہے اور اس زمانے میں کسی بھی تحریک کے لیے کامیابی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہ اپنی قوم اور سماج کو سیاسی حوالے سے متحرک نہ کریں،اگر آج ہم بلوچ قوم کی سیاسی تربیت کا سلسلہ یوں ہی برقرار رکھیں گے جیسے کہ پچھلے پانچ سالوں سے ہم کرتے چلے آرہے ہیں تو میں نے سمجھتا ہوں کہ ہمیں ہماری منزل پہ پہنچنے سے کوئی روک نہیں سکے گا۔”
آپ نے تمام کارکنوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ ” ہم بلوچ نیشنل موومنٹ کے سیاسی اورانقلابی پروگرام کو ہر بلوچ تک پہنچانااپنا فرض خیال کرتے ہیں اور اس کے لیے ہم دن رات ایک کریں گے تاکہ بلوچ نیشنل موومنٹ( کے انقلابی پروگرام کے ذریعے بلوچ قوم دشمن کے خلاف قومی آزادی کے لیے متحرک ہوکر اپنا کردار ادا کرے۔”
کونسل سیشن کے بعد کارکنوں کی سیاسی تربیت کے لیے ورکشاپ، سیمینار اور اسٹڈی سرکلز کا سلسلہ شروع ہوا جو کارکنان کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے انتہائی اہم پیشرفت تھی۔
ان پروگراموں کے علاوہ کراچی سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بلوچستان میں جاری قابض ریاستی اداروں کی بربریت کو اجاگر کرنے اور عوام کو متحرک کرنے کے لیے جلسے،جلوس اور احتجاجی مظاہرے شروع کیے گئے۔
آپ (شہید غلام محمدبلوچ)کی قیادت میں پارٹی کی جانب سے ایسے پروگراموں کے انعقاد نے عوام میں بلوچ جہدآزادی کا ایک ایسا جذبہ اجاگر کیا جسے دیکھ کر آپ اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ بلوچ قوم تحریک آزادی میں اپنی شمولیت سے آج ایسی تاریخ رقم کررہی ہے جس پہ آنے والی نسلیں فخر کریں گے لیکن ہمیں ابھی مزیدایسے اقدامات کرنے ہیں جن کو دیکھتے ہوئے بلوچستان اور بلوچستان سے باہر بلوچ قوم اور دنیا کے دیگر مہذب اقوام ہماری اس تحریک کو نہ صرف ہمارے لیے بلکہ اس پورے خطے کے لیے اہم نقطہ قرار دے اور یہ آپ لوگوں کی محنت اور سیاسی پختگی سے ہی ممکن ہوگا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here