بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے صدر مقام اوتھل میں پاکستانی فورسز ہاتھوں جبری گمشدگی کے شکار طالب علم کی کیخلاف لسبیلہ یونیورسٹی کے اندر ساتھی طلبا کااحتجاجی دھرنا جاری ہے۔
یاد رہے کہ لسبیلہ یونیورسٹی کے طالب علم بیان دُر بلوچ کو 29 نومبر کی شام تقریباً 6 بجے اوتھل بازار سے ساتھی طلبہ کے ہمراہ ریاستی اداروں نے جبری طور پر لاپتہ کر دیا۔ بعد ازاں، دیگر تین ساتھی طلبہ کو شدید ذہنی اور جسمانی تشدد کے بعد رہا کر دیا گیا، لیکن بیان دُر بلوچ تاحال لاپتہ ہیں۔
اس واقعے کے خلاف 30 نومبر کو لسبیلہ یونیورسٹی کے طلبہ نے کلاسز اور امتحانات کا مکمل بائیکاٹ کرتے ہوئے احتجاج کا آغاز کیا۔
طلبہ نے پریس کانفرنس میں ریاستی اداروں، جامعہ انتظامیہ، اور مقامی حکام سے مطالبہ کیا کہ بیان دُر بلوچ کو فوری طور پر بازیاب کیا جائے، بصورت دیگر مزید سخت اقدامات کیے جائیں گے۔
احتجاج اس وقت شدت اختیار کر گیا جب طلبہ نے جامعہ کے احاطے میں احتجاجی کیمپ لگایا، لیکن جامعہ انتظامیہ نے طاقت کے استعمال سے اس کیمپ کو ختم کر دیا اور طلبہ کو ہراساں کیا۔ اس کے باوجود طلبہ نے عزم و حوصلے کے ساتھ اپنا احتجاج جاری رکھا۔
یکم دسمبر کو طلبہ نے جامعہ میں احتجاجی ریلی نکالی، جس کے اختتام پر پریس کانفرنس کے ذریعے حکام کو 24 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا گیا کہ اگر بیان دُر بلوچ کو بازیاب نہ کیا گیا تو احتجاج مزید شدت اختیار کرے گا۔
2 دسمبر کو بیان دُر بلوچ کے اہل خانہ بھی احتجاج میں شامل ہو گئے، جس سے مظاہرین کا حوصلہ مزید بلند ہوا۔ طلبہ اور اہل خانہ نے مشاورت کے بعد 3 دسمبر کو ایک سیمینار منعقد کرنے کا اعلان کیا۔
3 دسمبر کو لسبیلہ یونیورسٹی میں سیمینار بعنوان "بیان دُر بلوچ کی جبری گمشدگی اور ہماری ذمہ داری” منعقد کیا گیا، جس کا آغاز بلوچ قومی ترانے سے ہوا۔ سیمینار کے تین اہم سیشنز تھے۔
پہلے سیشن میں خطبات ہوئے جس میں مقررین نے جبری گمشدگی جیسے حساس مسئلے پر روشنی ڈالی اور ریاستی اداروں، جامعہ انتظامیہ، اور معاشرتی بے حسی پر تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ خاموشی ان مظالم کے تسلسل کی بنیادی وجہ ہے اور عوام، خاص طور پر طلبہ، کو اس ظلم کے خلاف متحد ہو کر جدوجہد کرنی چاہیے۔
دوسرے سیشن میں پینل مباحثہ منعقد ہوا، اس سیشن میں طلبہ و شہریوں کی جبری گمشدگی کے اثرات، بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں عسکری مداخلت، اور عوامی خاموشی پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ مقررین نے ان مظالم کے خاتمے کے لیے اجتماعی جدوجہد اور طلبہ کے فعال کردار کی اہمیت پر زور دیا۔