پارلیمنٹ لاپتا افراد کا مسئلہ حل کر کے خود کو سپریم ثابت کرے، سپریم کورٹ

ایڈمن
ایڈمن
8 Min Read

سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ جبری لاپتا افراد کامسئلہ حل کر کے خود کو سپریم ثابت کرے۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کا عام یا مشترکہ اجلاس بلا کر لاپتا افراد کے مسئلے کو حل کیا جائے، عدالت نے پارلیمان کو سپریم تسلیم کیا ہے ، پارلیمنٹ خود کو سپریم ثابت کرے۔

سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 6 رکنی آئینی بینچ نے لاپتا افراد کیس کی سماعت کی۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے لاپتہ افراد کیس میں اٹارنی جنرل، وزارت داخلہ و دیگر فریقین کو نوٹس جاری کردیئے۔

دوران سماعت عدالت نے لاپتہ افراد پر تمام متعلقہ اداروں سے رپورٹس طلب کرلی۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیئے پارلیمنٹ کا عام یا مشترکہ اجلاس بلا کر مسئلے کو حل کریں، پارلیمنٹ کو عدالت نے سپریم تسلیم کیا ہے، پارلیمنٹ خود کو سپریم ثابت کرے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کا مزید کہنا تھا کہ میری نظر میں لاپتا افراد کا کیس انتہائی اہم ہے، لاپتہ افراد کے کیسز ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں چل رہے ہیں، لوگوں کی زندگیاں ہیں، ہزاروں لوگ لاپتہ ہے، یہاں اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ جیسے سینئر سیاستدان کھڑے ہیں، اس مسئلہ کا حل پارلیمنٹ نے کرنا ہے۔

سماعت کے دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل جاوید اقبال وینس نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کابینہ میں لاپتہ افراد کے معاملے پر گزشتہ روز بحث ہوئی ہے، کابینہ نے ذیلی کمیٹی بنادی ہے، ذیلی کمیٹی اپنی سفارشات کابینہ کو پیش کرے گی، حکومت لاپتہ افراد کا معاملہ حتمی طور پر حل کرنا چاہتی ہے۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ لاپتہ افراد کا بیان بازی سے حل نہیں ہوگا، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ لاپتہ افراد کمیشن نے اب تک کتنی بازیابیاں کی ہیں؟

جسٹس حسن رضوی نے سوال اٹھایا کہ کیا لاپتہ افراد کمیشن کے پاس معلومات ہیں کس نے افراد کو غائب کیا؟ جو لاپتہ لوگ واپس آئے انہوں نے کیا بتایا؟ کون اٹھاکر لیکر گیا؟

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ لاپتہ افراد واپس آنے پر کچھ نہیں بتاتے، واپس آنے پر کہتے ہیں شمالی علاقے آرام کے لیے گئے تھے۔

ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ نے مؤقف اختیار کیا کہ ملک ڈیپ اسٹیٹ بن گیا ہے، جس پر جسٹس مندوخیل نے ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ کو بات کرنے سے روک دیا اور ریمارکس دیئے کہ کھوسہ صاحب عدالت میں سیاسی بات نہ کریں، پارلیمنٹ کا عام یا مشترکہ اجلاس بلا کر مسئلہ کو حل کریں، لطیف کھوسہ نے مؤقف اختیار کیا کہ لاپتہ افراد کے معاملے کو 26 ویں آئینی ترمیم کی طرح حل کیا جائے؟ جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم بھی اپنے وقت پر دیکھی جائے گی۔

لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ لاپتہ افراد سے بلوچستان سب سے زیادہ متاثرہ ہے جس پر جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ قوم اور عدالت آپ پارلیمنٹرین کی طرف دیکھ رہی ہے۔

اعتزاز احسن نے عدالت کو بتایا پارلیمنٹ کے پاس عدالتی اختیارات نہیں ہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کھوسہ صاحب آپ کے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے لوگ بھی اٹھائے گئے جس پر لطیف کھوسہ نے کہا جی بالکل تحریک انصاف کے لوگوں کو بھی اٹھایا گیا۔

انہوں نے استفسار کیا کیا اٹھانے جانے والے افراد نے آکر بتایا کہ انھیں کون اٹھا کر لیکر گیا؟ لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ جو اٹھائے گئے ان کے بچوں کو بھی اٹھا لیا جائے گا۔

دوران سماعت وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ لوگوں کے 10 سال 20 سال سے پیارے لاپتہ ہیں، عدالت نے گزشتہ سماعت لاپتہ کے حوالہ سے حکم دیا تھا، آج وہ گزشتہ سماعت کا آرڈر بینچ کو نہیں مل رہا۔

آئینی بینچ کے جسٹس حسن رضوی نے کہا کہ لاپتہ افراد کے کیس میں عدالت کا آرڈر بھی لاپتہ ہوگیا۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے بلوچستان میں لاپتہ افراد کے ایک کلاسک مقدمے میں 25 وکلاء پیش ہوئے، بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم پر لاپتہ افراد گھر آگئے، عدالت نے واپس آنے والے افراد کو پیش ہونے کا حکم دیا، بازیابی کے بعد وہ افراد کسی عدالتی فورم پر بیان کے لیے پیش نہیں ہوئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بازیاب افراد کے بیان ریکارڈ کرنے کا ایک مقصد تھا کہ اگر آرمی اس میں ملوث ہے تو کورٹ مارشل کے لیے جی ایچ کیو کو لکھا جائے، اگر دیگر ادارہ ملوث ہیں تو ان کے ذمہ داران کیخلاف کارروائی کا حکم دیا جائے، لاپتہ افراد کے کسی مقدمہ کو مثال بنانا ہے تو اپنے اندر جرات پیدا کریں، لاپتہ افراد سے واپس آنے والوں میں کوئی تو کھڑا ہو، لاپتہ افراد کے کچھ کیسز افراد اور ریاست کو برباد اور بدنام بھی کرتے ہیں، لاپتہ افراد کے نام پر آزادی کی جنگ بھی چل رہی ہے، سسٹم میں کوئی کھڑا ہونے کو تیار نہیں۔

وکیل فیصل صدیقی نے مؤقف اختیار کیا کہ اٹارنی جنرل کی یقین دہانی کے بعد 350 افراد لاپتہ ہوگئے، اسٹیٹ آفیشل گزشتہ عدالتی احکامات کی نافرمانی کر رہے ہیں۔

اعتزاز احسن نے کہا اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی کہ کوئی شہری لاپتہ نہیں ہوگا۔

آئینی بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیئے کہ ہم لاپتہ افراد کیس میں حل کی طرف جانا چاہتے ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ لاپتہ افراد کا حل یہ ہے اسٹیک ہولڈرز سر جوڑ کے بیٹھیں، غور کریں کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ کیوں پیدا ہوتا ہے، پارلیمنٹ کو عدالت نے سپریم تسلیم کیا ہے، پارلیمنٹ خود کو سپریم ثابت کرے۔

وکیل اعتزاز احسن نے کہا جو لاپتہ افراد برآمد ہوئے انکو بلایا جائے۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے ہم انھیں بھی بلائیں گے، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا آپ اپنے آپ کو مضبوط کریں تو کون اٹھائے گا؟ لطیف کھوسہ نے کہا جو لاپتہ ہوا اس سے پوچھیں کتنا تشدد ہوا۔

جسٹس جمال خان مندو خیل کا کہنا تھا کہ کھوسہ صاحب آپ سے ریکارڈ سے پوچھیں گے کہ آپ نے لاپتہ افراد کے حوالے سے پارلیمنٹ میں کتنی تقرریں کیں۔

بعد ازاں عدالت نے لاپتہ افراد کیس میں اٹارنی جنرل، وزارت داخلہ و دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تمام متعلقہ اداروں سے رپورٹس طلب کرلیں اور کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔

Share This Article