وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا طویل احتجاجی کیمپ جاری

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں بلوچ جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے جا ری طویل احتجاجی کیمپ کو 5652 دن ہوگئے۔

قلات سے سیاسی اور سماجی کارکن محمدایوب بلوچ، بدل خان بلوچ اور درمحمد بلوچ نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی ۔

احتجاجی کیمپ میں عبدالغفار ولد شیر زمان کی فیملی نے شرکت کی اور جبری لاپتہ عبدالغفار کی گمشدگی کے حوالے سے تفصیلات جمع کیں اور اپیل کی کہ اسے بہ حفاطت بازیاب کیا جائے۔

عبدالغفار کو سریاب روڈ کلی بادینی چوک سے 19 نومبر 2024 کی شام ساڑھے چار بجے ریاستی فورسز نے غیر قانونی حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کیا ۔ ان کا پہلے سے ایک بیٹا نعمت اللہ کو فورسز نے لاپتہ کیا تھا۔

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ یہ جنگ مراعات کی نہیں بلکہ بلوچ بقا کی جدوجہد ہے ایسی ہزاروں مثاليں موجود ہیں جویہ ثابت کرتےہیں کہ بلوچ نوجوان نے اپنے روزگار امیربننے کی خاطر نہیں بلکہ وطن کی خاطر اپنے سروں پر کفن باندھ برسرپیکار ہیں حکمران یہ بھول گئے کہ روزایک نوجوان کی لاش بےگورکفن کبھی پہاڑوں میں کبھی ویرانوں میں تو کبھی دریائوں میں مل رہے ہیں کیاان شھیدوں کے مائوں کو چند سکے اسے اپنالال واپس دلاسکتے ہیں ان بوڑھے ماں باپ کو اس وقف سکون اور چین ملیں گے جب وہ وطن کے ہونگے وہ انسانيت کی قدر وہاں برابری ہو۔

ماما قدیربلوچ نے کہاکہ زندانوں میں ہزاروں بلوچ نوجوان ریاست کی ٹارچربرداشت کررہے ہیں اگر ٹارچر سیلوں میں اذیت برداشت کروانے والے ہزاروں نوجوان مراعات قبول کرتے تووہ جام شھادت نوش نہ کرتے اگر ٹارچر سیلوں میں بلوچ نوجوان نے مراعات قبول کرتے تو آ ج ان کے ماں باپ بہن بھائی کبھی کوئٹہ کراچی اسلا آباد پریس کلبوں کے سامنے اپنے پیاروں کی تصویریں اُٹھاکر بھوک ہرتالی کیمپوں میں پرامن احتجاج اور مظاہرے نہیں کرتے ۔

پچھلے پانچ سالوں میں خود کو جمہوری حکومت کہتے چلے آرہےہیں اتنی بلوچ کی نسل کشی جبری اغوا نما گرفتاری دوسرے تمام غیرفطری ذرائع اس نام نہاد جمہوری حکومت نے کی اور کررہےہیں شاید کبھی کسی نے بلوچ قوم پر کیاہو اس نام نہاد جمہوری حکومت نے بلوچ نسل کشی کے دوران کو ایسے عظيم شخصيات سے محروم کردیا جو بلوچ قوم کو مراعات سے زیادہ عزیز تھیں۔

Share This Article