بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں بلوچ جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری احتجاجی کیمپ کو 5637 دن ہوگئے ۔
نیشنل پارٹی کے سابقہ مرکزی جنرل سیکرٹری جان محمد بلیدی ،علی احمد لانگو،آغاگل، بی ایس او پجار کے چیئرمین بوہیر بلوچ نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی ۔
واضع رہے کہ پندرہ سالوں سے جاری کیمپ کو گذشتہ ہفتے دو مرتبہ نقصان پہنچایا گیا ۔ایک بار کیمپ کو نذر آتش کیا گیا جبکہ دوسری بار کیمپ کومکمل اکھاڑ کر لے جایا گیا۔
ماضی میں متعدد مرتبہ ریاستی اداروں کی جانب سے کیمپ کو نقصان پہنچایا گیا لیکن ماما قدیر اسے پھر سے لگانے میں سپھل رہے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کی دردناک واقعات حالات خون سے لت پت لاشوں اور قبضہ گیر کی داستان، انسانیت سے عاری ظلم جبر اور بلوچ نسل کشی کی داستان لکھتے وقت قلم سے خون ٹپکنے لگتاہے آنکھوں میں آنسوبھر آتےہیں دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتی ہیں خوف انسان کوچاروں اطراف سے گھیرلیتاہے مگر ظالم ظلم سےنفرت انسانی خوف کوحق کی لڑائی میں فوقیت دےدیتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نفرت نے قومی سوچ کو تقویت دے کرقوم پرستی کےجزبے کو جدیدیت کے راستے پر گامزن کرکے قومی تحریک کی آواز کو عالمی برادری کی اعلیٰ ایوانوں تک پہنچایا۔دشمن قبضہ گیر بلوچ قوم کو صفحہ ہستی سےمٹانے قوم کو دائمی غلام بنانے بلوچ قوم کی تاریخی روایات مٹانےسر زمین پر قبضہ کرکے مال مڈی کو ہتھیانےاسلام آباد کی بھوک کو بلوچ وسائل سےمٹانے اور بلو سرزمین پر اپنی بالا دستی قائم کرنےکےلیے ۔
انہوںنے کہا کہ بلوچ قوم کے عظیم رہنمائوں و جانبازوں کو تحریک کے راستے سے ہٹانےکےلیے تشدد کرومارو اور پھینک دو کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے ۔ دشمن تشدد کے ذریعے قومی تحریک کو زیر عتاب کرنا چاہتی ہے تاکہ مزید لوٹ مار کر سکے، تشدد کےذریعے خوف پھیلانے کے عمل میں ناکامی سے یہ عمل قومی تحریک کے حقیقی جھد کارواں اور غیر سیاسی لوگوں کو واضع کرنے میں بلوچ لیڈر شپ کے لئے کارگر ثابت ہوئی جوقومی تحریک کے تکالیف و مصائب اور انجام سے ناواقف تھے تو تشدد کی ایک جلھک اُنیں خاموش کرگئی مگر حقیقی جھد کار چٹان کی طرح ڈٹے رہے ۔
آج بھی بلوچ قوم کے حقیقی جھد کارچٹان کی طرح ڈٹے رہے۔ آج بھی بلوچ قوم کے حقیقی دوست رہنماؤں ارو جھد کاروں کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کر کےاُنہیں مشکوک قرار دے کر ان کی اہمیت اور قربانیوں کا گلا گھونٹنے کی کوشش میں قبضہ گیر اور اس کی ٹکڑوں پر پلنے والی بھی ٹیم کے اس عمل کو ہم خود عملی جامہ پہنارہےہیں۔