پاکستان کے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں 27 لاکھ پاکستانیوں کا نادرا سے ریکارڈ چوری ہونے کا انکشاف ہوا ہے جب کہ 27 تحصیلیں ایسی ہیں جہاں نادرا کے دفاتر ہی موجود نہیں ہیں۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس راجا خرم نواز کی زیر صدارت ہوا، چیئرمین نادرا نے بریفنگ میں بتایا کہ 27 لاکھ پاکستانیوں کا نادرا سے ریکارڈ چوری کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ 61 تحصیلیں ایسی ہیں جن میں نادرا کے دفاتر نہیں ہیں، یہ ایسی تحصیلیں ہیں جہاں حکومت نے اعلان تو کردیا لیکن ان کی حلقہ بندی نہیں کیں۔
چیئرمین نادرا نے بتایا کہ نادرا کے اندر کئی ایسے تعیناتیاں ہوئیں جو ایڈورٹائز نہیں ہوئیں، بہت سے افسران نے اپنی ڈگریاں بعد میں مکمل کیں جب کہ نادرا کے دفاتر کو نہیں بڑھا سکتے، نادرا کے دفاتر بڑھانے سے شناختی کارڈ کی فیس بڑھانا ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ نادرا کا اپنا فنڈ ہے، ہم نے فیس تبدیل نہیں کی، ہم نے کارڈز کو ری نیو نہیں کیا، ہمارا بجٹ 57 ارب ہے اور 87 فیصد تنخواہوں میں جاتا ہے جب کہ وفاقی حکومت کا چیئرمین اور بورڈ کی تعیناتی کے علاوہ کوئی عمل دخل نہیں ہے، نادرا کی تمام تعیناتیاں نادرا حکام کی جانب سے کی جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس 240 کے قریب نادرا وینز موجود ہیں، 90 وینز ہم مزید خریدنے جا رہے ہیں، 75 وینز پر سیٹلائٹ کنیکٹویٹی کی سہولت موجود ہوگی، کوئٹہ اور خیبرپختونخوا میں 35 وینز پر سیٹلائٹ کنیکٹویٹی ہے۔
کمیٹی کے رکن حنیف عباسی نے کہا کہ نادرا کے دفتر سے افغانوں کے جعلی شناختی کارڈ بنے ہیں، رکن کمیٹی آغا رفیع اللہ نے کہا کہ انہوں نے فیصلہ کیا تھا بہاریوں کا مسئلہ حل کرکے آگے بڑھیں گے، یہ کمٹمنٹ ہوئی تھی کہ جب تک بہاریوں کا مسئلہ حل نہیں ہوتا کوئی حکومتی بل منظور نہیں ہوگا۔