بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں بلوچ جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری احتجاجی کیمپ کو 5597 دن ہوگئے ہیں ۔
جھائو آواران سے بی ایس او پجار کے کارکنان ظریف بلوچ امداد بلوچ اور دیگر ساتھیوں نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی ۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان سے متعلق متعدد ممالک کے قانون سازوں کا اجتماع یورپین پارلیمنٹ برسلز میں منقد ہوا جس میں پاکستان کی جانب سے بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں مارو اور پھینکوں کی بلوچ نسل کش پالیسیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔ بلوچستان میں جاری عسکری آپریشن اور بلوچ عوام کے حقوق غصب کرنے پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان جو کہ قدرتی وسال سے مالا مال ہے لیکن پاکستان کی بلوچ دشمنی پالیسیوں نے اسے دنیا کا ایک غریب ترین خطہ بنا دیا شرح نا خواندگی کی سطح اتنی ہی بلند ہے بلوچستان میں بلوچوں کی جبری گمشدگی اور لاشوں کا پھینکنا ناقابل قبول عمل ہے جیسے کسی بھی طرح برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بین الاقوامی برادری کے کردار ادا کرنے کو انتہائی ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ تمام مسائل کا حل بلوچوں کو انصاف فراہم کرنے میں مضمر ہے جہاں لوگوں کو انصاف نہیں ملتا اور لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے وہاں تشدد کے احیانات بھوک اُٹھتے ہیں بین الاقوامی برادری کو اس سلسلے میں کردار ادا کرنا چاہیئے۔
اُنہوں نے کہا کہ بلوچ عوام کو قریب سات دعیوں سے پاکستانی جبر کا سامنا ہے پاکستان بلوچ عوام کا اعتماد کو کھو چکا ہے۔ بلوچ سرگرمیوں کو توپوں فضائی حملوں سے دبانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے معتبر تنظیمیں جیسا ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بگڑتی ہوئی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔