اقوام متحدہ کے ماہرین کہتے ہیں کہ شمالی کوریا میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد بڑھنے کے علاوہ وہاں خوراک کی قلت اور غذائیت میں کمی کی وجہ بھوک اور بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے اہل کاروں کا کہنا ہے کرونا وائرس کے ساتھ شمالی کوریا کے ایک کروڑ سے زیادہ لوگ خوراک کی قلت اور غذائیت میں کمی کا شکار ہیں۔ شمالی کوریا کی کل آبادی کے 40 فی صد حصے کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی ضرورت ہے۔
جینوا سے ہماری نامہ نگار لیزا شلائین نے خبر دی ہے کہ ورلڈ فوڈ پروگرام کی ترجمان خاتون الیسا بیتھ بائرز کا کہنا ہے شمالی کوریا کی بیشتر آبادی کو طبی سہولتیں میسر نہیں، نہ انہیں صاف پانی ملتا ہے اور نہ نکاسی آب اور صحت و صفائی کی خدمات میسر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہاں پانچ سال سے کم عمر تقریباً 17 لاکھ بچے کم خوراکی کا شکار ہیں، جس سے ان کی صحت پر گہرے اور طویل المعیاد اثرات پڑتے ہیں۔خوراک کے اس بحران کے ساتھ ساتھ کرونا وائرس کی وبا کا بھی سامنا ہے۔
بائرز کا کہنا ہے کہ دس میں سے ایک بچہ کم وزنی کا مارا ہوا ہے۔ کم خوراکی انسانی صحت پر ناقابل تلافی اثرات چھوڑ جاتی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام نے انتباہ کیا ہے کہ ایسی خراب صحت اور ناقص سہولتوں کے ساتھ کرونا وائرس سے بچنے کی تدابیر پر عمل کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
شمالی کوریا کی حکومت سرکاری طور پر یہ کرونا وائرس کے کیسیز کی تعداد نہیں بتا رہی ہے۔ شمالی کوریا نے چین کے ساتھ اپنی سرحد بند کر دی ہے اور اس طرح دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بھی نہیں ہو رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے خصوصی ریپر ٹائر برائے شمالی کوریا میں انسانی حقوق ٹامس کوینٹانا کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا میں اقتصادی بحران اور خوراک کی شدید قلت بڑھتی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بہت سے خاندانوں کو مشکل دو وقت کی روٹی نصیب ہے اور بعض خاندانوں کو بھوک کا سامنا ہے۔
انہوں نے خاص طور پر ایسے ہزاروں افراد کا ذکر کیا ہے جو جیلوں میں بند ہیں اور جنہیں سیاسی طور پر قید کیا گیا ہے۔ بقول ان کے، اطلاعات کے مطابق ایسے قیدیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو بھوک، بہت سے لوگوں کے اکٹھا ساتھ رہنے اور دوسری بیماریوں سے ہلاک ہو رہے ہیں۔
تفتیش کاروں نے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے قیدیوں کو جلد از جلد رہا کیا جائے جن کو کرونا وائرس میں مبتلا ہونے کا زیادہ خطرہ ہے۔
کوینٹانا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے بھی اپیل کی کہ وہ شمالی کوریا کے خلاف عائد پابندیاں اٹھا لے۔ انہوں نے کہا کہ ان پابندیوں سے شمالی کوریا کے عوام شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ حکومت کو بھی اپنے عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے سلسلے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ یہ پابندیاں شمالی کوریا کے ایٹمی اور میزائیل پروگرام کے خلاف سلامتی کونسل نے عائد کی تھیں۔