بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر میں انتظامیہ اور دھرنے کے شرکا کے درمیان رات گئے کامیاب مذاکرات کے بعد چار روز سے بند ساحلی شاہراہ کو ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا۔
پاکستان کوسٹ گارڈ کے رویے اور زیادتیوں کیخلاف تین مقامات پر یہ دھرنا گذشتہ چار دنوں سے جاری تھے جس سے ضلع گوادر کا دیگر شہروں سے زمینی رابطہ منقطع تھا۔
دھرنوں کے باعث گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئی تھیں۔ہزاروں کی تعداد میں مسافر اور مال بردارگاڑیاں پھنس گئی تھیں۔
ضلع کونسل کے چیئرمین معیار جان نوری کی ثالثی میں رات کو ڈپٹی کمشنر گوادر حمود الرحمان، اسسٹنٹ کمشنر جواد زہری نے پسنی میں نلینٹ زیرو پوائنٹ پر دوبارہ مذاکرات کیے۔
یہ دھرنے ایرانی تیل کے کاروبار سے وابستہ افراد کی جانب سے اپنے مطالبات کے حق میں دیے گئے جن کی حمایت ’آل پارٹیز گوادر‘ اور ’حق دو تحریک‘ نے بھی کی تھی۔
شاہراہ کی بندش کی وجہ سے جہاں گوادر اور دیگر شہروں کے درمیان سفر کرنے والے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہیں گوادر شہر اور اس کے دیگر علاقوں میں اشیائے خوردونوش کی بھی قلت پیدا ہوئی۔ احتجاج کی وجہ سے پھنسنے والوں میں وہ زائرین بھی شامل تھے، جو ایران سے گوادر میں داخل ہوئے تھے۔
بلوچستان کے دیگر سرحدی اضلاع کی طرح گوادر میں بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے کاروبار اور روزگار کا انحصار ایران سے آنے والے تیل اور اشیائے خوردونوش پر ہے۔
جمعے کے روز سے تیل کے کاروبار سے وابستہ پک اپ یونین اور آئل ڈپو مالکان نے سربندن اور نلینٹ زیرو پوائنٹ سے ساحلی شاہراہ کو یہ کہہ کر بند کیا کہ گوادر سے تیل کی چھوٹی گاڑیوں کی بین الاضلاعی نقل و حمل پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
پسنی میں نلینٹ زیرو پوائنٹ پر دھرنے میں شریک امان جمعہ نے فون پر بتایا کہ گوادر میں ماہی گیری اور ایران کے ساتھ سرحدی تجارت کے سوا روزگار کے دیگر ذرائع نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’دیگر سرحدی علاقوں میں تیل لانے والی چھوٹی گاڑیوں کو دیگر اضلاع میں جانے کی اجازت ہے لیکن گوادر میں کنٹانی کے علاقے سے جو چھوٹی گاڑیاں تیل لاتی ہیں ان کو اجازت نہیں دی جا رہی۔ اس مقصد کے لیے تلار کے علاقے میں کوسٹ گارڈز کی ایک اضافی چیک پوسٹ حال ہی میں قائم کی گئی حالانکہ تلار کوسٹ سے بہت زیادہ دور ہے۔‘
ان کے بقول تلار میں پہلے ہی سکیورٹی فورسز کی ایک چیک پوسٹ قائم ہے جس کے ہوتے ہوئے کوسٹ گارڈز کی اضافی چیک پوسٹ کا کوئی جواز نہیں۔
امان جمعہ نے کہا کہ گوادر میں کنٹانی کے سرحدی علاقے میں حکومت کی جانب سے تین دن کی چھٹیوں کا اعلان کیا گیا جو بہت زیادہ ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ تیل کے کاروبار سے وابستہ لوگوں کا مطالبہ ہے کہ ہفتے میں ایک یا دو دن چھٹی کی جائے کیونکہ وہاں کام کرنے والے مزدوروں کا تعلق سندھ سے ہے اور اگر ہفتے میں تین دن کام بند ہو گا تو مزدور چلے جائیں گے۔
انھوں نے بتایا کہ رات گئے ہونے والے یہ مذاکرات کامیاب ہو گئے۔ انھوں نے کہا کہ فی الحال تیل لانے والی چھوٹی گاڑیوں کے گوادر سے باہر جانے پر کوئی پابندی نہیں ہو گی جبکہ دس روز بعد کنٹانی سرحدی کراسنگ پوائنٹ پر ہفتے میں تین دن کی بجائے دو دن کاروبار بند ہو گا۔
احتجاج کے باعث عام لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ گوادر اور کراچی کے درمیان ساحلی شاہراہ کے مختلف مقامات پر دھرنوں کی وجہ سے گوادر کا جمعے کے روز سے کراچی اور بلوچستان کے دیگر علاقوں سے رابطہ منقطع رہا۔
اس کے نتیجے میں مختلف علاقوں میں گاڑِیوں کے پھنس جانے کی وجہ سے لوگوں کو پریشانی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جن میں خواتین اور بچوں سمیت زائرین کی بھی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔
پسنی سے تعلق رکھنے والے صحافی ساجد نور نے بی بی سی کو بتایا کہ جہاں شاہراہ کی بندش سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہاں گوادر شہر اور اس کے دیگر علاقوں میں اشیائے خوردونوش کی بھی قلت پیدا ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ گوادر میں سبزیاں اور متعدد دیگر اشیا باہر سے آتی ہیں جبکہ چار روز سے گوادر کے راستے بند ہونے کی وجہ سے سبزیوں کی قلت پیدا ہوگئی۔