کوئٹہ : توہین رسالت کا گرفتارملزم پولیس لاک اپ میں قتل

0
32

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کی پولیس کے ایک سینیئر اہلکار کے مطابق توہین رسالت کے الزام میں زیرِ حراست ایک ملزم کو ایک پولیس اہلکار نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا ہے۔

ملزم عبدالعلی کو بدھ کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد خروٹ آباد تھانے کی پولیس کی جانب سے حراست میں لیا گیا تھا اور ان کے خلاف تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295 سی کے تحت مقدمہ درج تھا۔

ویڈیو وائرل ہونے کے بعد خروٹ آباد پولیس سٹیشن کے باہر لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہو گئی تھی اور یہ ہجوم ملزم کو ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہا تھا۔

پولیس کے مطابق ’خروٹ آباد پولیس سٹیشن مظاہرین کی بڑی تعداد کی موجودگی کی وجہ سے غیرمحفوظ تھا اس لیے ملزم کو کینٹ پولیس سٹیشن منتقل کر دیا گیا تھا۔‘

پولیس اہلکار کے مطابق کینٹ تھانے میں ہی ایک پولیس اہلکار نے فائرنگ کر کے ملزم عبدالعلی کو ہلاک کیا ہے۔‘

خروٹ آباد پولیس سٹیشن کے ایک سینیئر اہلکار کا کہنا ہے کہ عبدالعلی پر گولی چلانے والے پولیس اہلکار کو گرفتار کر لیا گیا ہے جس سے تفتیش کی عمل جاری ہے۔

پولیس کے مطابق عبدالعلی کی لاش کو سول ہسپتال منتقل کرنے کی بجائے متعلقہ پولیس سرجن کو پوسٹ مارٹم کے لیے ایک محفوظ مقام پر بلا لیا گیا ہے۔

عبدالعلی کے خلاف توہینِ مذہب کے الزام کی وجہ بننے والی مبینہ ویڈیو ایک چلتی گاڑی میں ریکارڈ کی گئی تھی ۔

ملزم کے خلاف درج ایف آئی آر کے مطابق گاڑی عبدالعلی خود چلا رہے تھے اور اس دوران گاڑی میں سوار ایک شخص ان سے تحریک انصاف کے ایک رہنما کی گرفتاری پر ان کا ردِعمل پوچھتا ہے۔

اس گرفتاری پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’اب لوگوں کو ہر علاقے میں سرکاری اہلکاروں کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے اور ان سے پوچھنا چاہیے کہ وہ حالات کو کس جانب لے جا رہے ہیں۔‘

ایف آئی آر کے مطابق ملزم نے اسی گفتگو کے دوران مذہبی اعتبار سے ’نازیبا‘ الفاظ کا استعمال کیا تھا۔

ویڈیو وائرل ہونے کے بعد بدھ کو لوگوں کی ایک بڑی تعداد کوئٹہ میں جبل نورالقرآن کے قریب مغربی بائی پاس پر جمع ہو گئی تھی۔

لوگوں نے مغربی بائی پاس اور اسپنی روڈ پر ٹائر جلا کر ٹریفک کے لیے بند کر دی تھی اور وہ ملزم کی گرفتاری اور اسے سزا دینے کا مطالبہ بھی کر رہے تھے۔

تاہم ملزم کی گرفتاری کے بعد بھی مظاہرین منتشر نہیں ہوئے بلکہ خروٹ آباد پولیس سٹیشن کے باہر جمع ہو گئے تھے اور وہ پولیس سے ملزم کی حوالگی کا مطالبہ کر رہے تھے۔

ایس پی صدر پولیس شوکت مہمند کے مطابق ’ہجوم کی جانب سے یہ غیر قانونی مطالبہ کیا جاتا رہا کہ ملزم کو ان کے حوالے کیا جائے۔‘ انھوں نے ہجوم کے مطالبے کو بلاجواز قرار دیتے ہوئے کہا کہ نہ صرف ملزم کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا بلکہ اسے گرفتار بھی کیا گیا۔

بدھ کی شام ہجوم کی جانب سے تھانے پر پتھراؤ کیا گیا اور مشتعل افراد نے تھانے کے مرکزی دروازے کو توڑ کر تھانے کی حدود میں داخل ہونے کی بھی کوشش کی تھی جس پر ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کی جانب سے آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی۔

مظاہرین کی جانب سے تھانے کا گھیراؤ اور اس پر پتھراؤ کا سلسلہ رات دیر تک جاری رہا اور اسی دوران ملزم کو کینٹ تھانہ منتقل کر دیا گیا تھا۔

بعض حلقے اس واقعہ کوپاکستانی فو ج وانٹیلی جنس اداروں کی ایک منصوبہ بندقتل قرار دے رہے ہیں ۔

ان حلقوں کا کہنا ہے کہ اداروں کو مقتول کی یہ بات سخت ناگوار گزرا جس میں وہ گذشتہ روزاسلام آباد میں پی ٹی آئی رہنمائوں کو پارلیمنٹ کے اندراورباہر فوج کی ایما پرگرفتار ی کے ردعمل پر کہہ رہے ہیں کہ لوگوں کو اب سرکاری اہلکاروں کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے اور ان سے پوچھنا چاہیے کہ وہ حالات کو کس جانب لے جا رہے ہیں۔‘

چونکہ پاکستان بھر میں فوج کیخلاف اب عوامی سطح پر سخت غم و غصہ پایا جارہا ہے تو اب عسکری اسٹیبلشمنٹ توہین مذہب، توہین رسالت ،توہین قرآن ،غداری ،ملکی سالمیت ودہشتگردی کے الزام کے تحت لوگوں کوقانونی پیچیدگیوں اور مشتعل ہجوم کے آڑ میں دیوار سے لگا رہی ہے ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here