بلوچستان میں معصوم شہریوں کے قاتلوں سے بدلہ لیا جائے گا، سرفراز بگٹی

0
39

بلوچستان کے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے پیر کی شام کوئٹہ میں دوسرے اتحادی جماعتوں کے رہنمائوں کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی نہیں بلکہ یہاں ملک کو کمزور کرنے کے لیے ایک منظم عسکریت پسندی ہورہی ہے۔

انہوںنے موسیٰ خیل سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں عسکریت پسندی‘ کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ معصوم شہریوں کے قاتلوں سے بدلہ لیا جائے گا اور انھیں قانون کے مطابق قرار واقعی سزا دی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ عسکریت پسندمعصوم اور بے گناہ لوگوں کو قتل کرتے ہیں اور پھر بھاگ جاتے ہیں۔ اگر یہ بہادر ہیں تو اپنی بزدلانہ کاروائیوں کے بعد بھاگ نہیں جائیں بلکہ رک جائیں اور سکیورٹی فورسز کا مقابلہ کریں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمیشہ سافٹ ٹارگٹ دیکھتے ہیں اور پھر انہی پر حملہ کرتے ہیں کیونکہ یہ سکیورٹی فورسز کا مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں۔

انہوںنے کہا کہ ’ان عسکریت پسندوںنے اپنا حشر لسبیلہ میں دیکھ لیا جہاں سکیورٹی فورسز نے کیمپ کے گیٹ پر سب کو ہلاک کردیا اور ان کے حملے کو ناکام بنا دیا۔‘

واضع رہے کہ بی ایل اے کی جانب سے جاری کردہ ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سرمچار کیمپ کے اندر ہیں اور ایک کمرے سے کیمپ کے دیگر ایریاز میں چھپے فورسز پر فائرنگ ، دستی بم حملہ ومارٹر گولے فائر کر رہے ہیں ۔

بی ایل اے اپنے بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ انہوںنے بیلہ کیمپ میں 68 اہلکار ہلاک کئے جبکہ 7 فدائین بھی شہیدہوگئے۔

سرفراز بگٹی نے کہا کہ ’یہاں جو عسکریت پسندی ہورہی ہے اس کے بارے میں کبھی کبھار پاکستان کا سماج کنفیوزڈ لگتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ یہ سکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کی لڑائی ہے حالانکہ یہ لڑائی پاکستان کی لڑائی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ عسکریت پسندی کے خلاف لڑائی صرف سکیورٹی فورسز کی نہیں بلکہ عدلیہ، میڈیا سمیت سب کی لڑائی ہے اور ہم سب نے مل کر اس کو لڑنا ہے۔ یہاں کی سیاسی جماعتوں اور باقی سب کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں یا اس کے مخالفین کے ساتھ۔ حکومت ظالم کے ساتھ نہیں بلکہ مظلوم کے ساتھ کھڑی ہے۔

سرفراز بگٹی نے کہا کہ بعض لوگ مذاکرات کی بات کرتے ہیں اور یہ بھی تاثر دیتے ہیں کہ میں مذاکرات کا حامی نہیں ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم مذاکرات کس سے کریں کیونکہ یہ تو صرف بندوق کے منہ سے بات کررہے ہیں اور عسکریت پسندی کا بازار گرم کررکھا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’جو بھی مذاکرات کرنا چاہتا ہے وہ اسلحہ پھینک دے تو ایسے لوگوں کے لیے مذاکرات کے دروازے ہر وقت کھلے ہیں لیکن ہم عسکریت پسندی پر خاموش تماشائی نہیں بنیں گے اور اس کے خلاف جو بھی اقدامات کرنے پڑے وہ ہم کریں گے۔‘

سرفرازنے مزید کہا کہ ’جو لوگ اس طرح کی عسکریت پسندی کررہے ان کی صلاحیت بہت زیادہ نہیں ہے اس لیے آئی بی اوز کے ذریعے ان پر قابو پایا جائے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان ایک طویل و عریض علاقہ ہے اور کبھی کبھار عسکریت پسندوں کو موقع ملتا ہے ورنہ ہمارے سکیورٹی فورسز نے عسکریت پسندی کے کئی منصوبوں کو وقوع پذیر ہونے سے پہلے ہی ناکام بنایا ہے۔‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here