کردوں کیخلاف ترکیہ اور عراق نے فوجی، سیکورٹی اور انسداد دہشت گردی تعاون کے بارے میں ایک مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے ہیں۔
ترکیہ کے وزیر خارجہ حقان فیدان نے جمعرات کو انقرہ میں دو روزہ اعلیٰ سطحی سیکورٹی مذاکرات کے بعد کہا ہے کہ ترکیہ اور عراق نے فوجی، سیکورٹی اور انسداد دہشت گردی تعاون کے بارے میں ایک مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے ہیں۔
ان دونوں پڑوسی ممالک میں حالیہ برسوں میں شمالی عراق کے پہاڑی علاقے میں کالعدم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے عسکریت پسندوں کے خلاف انقرہ کی سرحد پار فوجی کارروائیوں پر آپس میں تنازعہ رہا ہے۔
عراق ان کارروائیوں کو اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیتا ہے، جبکہ انقرہ کااستدلال ہے کہ اس کی اپنی سیکیورٹی کے لیے ان اقدامات کی ضرورت ہے۔
تاہم گزشتہ سال اس وقت سے تعلقات میں بہتری آئی ہےجب دونوں ملکوں نے سیکورٹی کے معاملات پر اعلیٰ سطحی مذاکرات کے انعقاد پر اتفاق کیا، جس کے بعد اپریل میں ترک صدر طیب ایردوان نے بغداد کے دورے کے بعد کہا کہ تعلقات ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں۔
انقرہ اور بغداد نے ڈائیلاگ میکانزم کےحصے کے طور پر اس ہفتے میٹنگز کا چوتھا دور منعقد کیا۔ مارچ میں بغداد نےکردستان ورکرز پارٹی کو عراق میں ممنوعہ تنظیم قرار دیا تھا- اس اقدام کا ترکیہ نے خیرمقدم کیاہے۔
فیدان نے اپنے عراقی ہم منصب فواد حسین کے ساتھ انقرہ میں مزاکرات کے بعد بات کرتے ہوئے کہا کہ دونوں فریقوں کے وزرائے دفاع کے درمیان طے پانے والا معاہدہ “تاریخی اہمیت کا حامل” ہے، جبکہ حسین نے کہا کہ یہ اس ضمن میں”عراق اور ترکیہ کی تاریخ میں پہلا” ہے۔
فیدان نے کہا، “اس معاہدے میں طے شدہ مشترکہ کوآرڈینیشن اور تربیتی مراکز کے ذریعے، ہمیں یقین ہے کہ ہم اپنے تعاون کو اگلی سطح تک لے جا سکتے ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ “ہم ٹھوس اقدامات کے ذریعے انسداد دہشت گردی کے حوالے سے عراق کے ساتھ جو سمجھوتہ کر رہے ہیں اسے آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔”
ترکیہ کے ایک سفارتی ذریعے نے بتایا کہ اس معاہدے کے تحت بغداد میں ایک مشترکہ سیکورٹی کوآرڈینیشن سینٹر کے ساتھ ساتھ، بشیقہ میں ایک مشترکہ تربیت اور تعاون مرکز بھی قائم کیا جائے گا۔ حسین نے بشیقہ تربیتی کیمپ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کسی وضاحت کیے بغیر کہا کہ “اس کی ذمہ دار عراقی مسلح افواج ہونگی۔”
پیر کے روز، ترک وزیر دفاع یاسر گلر نے رائٹرز کو بتایا کہ انسداد دہشت گردی پر ترکیہ اور عراق کے حالیہ اقدامات تعلقات میں ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتے ہیں، انقرہ چاہتا ہے کہ بغداد مزید پیش رفت کرکے کردستان ورکرز پارٹی کو جلد از جلد دہشت گرد تنظیم قرار دے۔
کردستان ورکرز پارٹی کو، جو 1984 سے ترکیہ کے خلاف بغاوت میں سرگرم ہے، ترکیہ، امریکہ اور یورپی یونین نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔ اس تنازعے میں 40 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔