راجی مچی میں شرکت کی پاداش میں سعدیہ بلوچ پنجاب یونیورسٹی سے فارغ

ایڈمن
ایڈمن
5 Min Read

بلوچ راجی مچی میں شریک اور شرکا کی مدد و سروسز فراہم کرنے پر متعدد افراد ریاستی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔

راجی مچی میں شریک اور شرکا کو کھانا و پانی ودیگرا مداد دینے سمیت گاڑی ،سائونڈسسٹمز ،ٹینٹ و دیگرسروسز فراہم کرنے کی پاداش میں اب تک متعدد دکانداران اورٹرانسپورٹرز جبری لاپتہ و گرفتاراورمتعدد پر مقدمات بنائے گئے ہیں ۔

جبکہ پنجگور میں دبئی ہوٹل کے سامنے راجی مچی کاروان کوجلسہ کرنے پرہوٹل کو سیل کردیا گیا ہے ۔

اب اطلاعات ہیں کہ کوہ سلیمان سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے سرگرم کارکن و طلبا رہنما سعدیہ بلوچ جو پنجاب یونیورسٹی لاہور میں زیر تعلیم ہیں کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کی 28 جوائی کو گوادر میں منعقدہ بلوچ راجی مچی میں شرکت کرنے کی پاداش میں ریاستی انتقامی کارروائی کا نشانہ بناکر یونیورسٹی سے نکال دیا ہے ۔

یاد رہے کہ سعدیہ بلوچ ڈیرہ غازی خان سے درجنوں افراد کے ساتھ قافلے کی صورت میں گوادر میں منعقدہ راجی میں شرکت کیلئے نکلی تھی لیکن وہ ریاست کی جانب سے راجی مچی کیخلاف کریک ڈائون میں مستونگ سے آگے نہ جاسکے اور ادھر ہی قافلے کی قیادت کرتے رہے۔

https://twitter.com/sadiabalochssb/status/1822927927513596381

راجی مچی میں شرکت کی پاداش میں سعدیہ بلوچ کو ریاستی فورسز کی جانب سے دھمکایاگیا ، فیملی کو ہراس کیا گیا جس سے فیملی کواپنا گھر چھوڑ کر دوسرے جگہے پر منتقل ہونا پڑا۔

پنجاب یونیورسٹی لاہور سے نکالے جانے کے حوالے سے سعدیہ بلوچ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر تفصیلات جاری کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی لاہور نے امتحانات سے ایک ہفتہ قبل مجھے یونیورسٹی نکالنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نوٹیفکیشن میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ میں (شرپسند طالب علم) نے ریاستی اداروں کے خلاف طلباء کے ذہنوں کو آلودہ کرنے کے لیے یونیورسٹی کا پلیٹ فارم استعمال کیا ہے۔ اور یہ کہ میرے طرز عمل سے تعلیمی ادارے کی ساکھ اور سالمیت کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ واضح رہے کہ یہ نوٹس جان بوجھ کر 2 ماہ قبل ہونے والے احتجاج کا جواز بنا کر جاری کیا گیا ہے اور اس میں جاری ہونے کی تاریخ 14 جون لکھی گئی ہے۔

جب کہ مجھے یہ خط 12 اگست 2024 کو موصول ہوا جب میں خود پنجاب یونیورسٹی شعبہ قانون سے پتہ کرنے گئی تھی ۔ سسپینشن آرڈر سے قبل کوئی چارج شیٹ بھی جاری نہیں کی گئی ہے ۔ تو یہ واضح ہے کہ یہ لیٹر میری بلوچ راجی مچی گوادر میں شرکت کے بعد جان بوجھ کر پچھلی تاریخیں ڈال کر جاری کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف ریاست اپنی فورسز اور انتظامیہ کے ذریعے بلوچ راجی مچی کے شرکاء کو نشانہ بنا رہی ہے بلکہ تعلیمی ادارے بھی بلوچ طلباء کو پرامن سیاست کی سزا دینے میں کوئی رعایت نہیں برت رہے ہیں۔

سعدیہ بلوچ نے کہا کہ ایک فیمیل بلوچ طالب علم ہونے کے ناطے میرے خلاف جو نامناسب زبان اور الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ اپنے آپ میں ادارے کے نام نہاد نظم و ضبط اور اقدار کے لیے سوالیہ نشان ہیں۔

انہوںنے کہا کہ میرے سالانہ امتحانات سے ایک ہفتہ قبل یہ گھناؤنی کوشش ناصرف میرے تعلیمی کیریئر کو دانستہ نقصان پہنچانے کیلئے ہے اور میرے ذاتی اور اخلاقی کردار پر حملہ ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کو BYC کے ساتھ ریاست کے طے شدہ مذاکرات کی پیروی کرنی چاہیے اور اس سسپینشن آرڈر کو ناصرف فوراً منسوخ کرے بلکہ اپنے بے بنیاد الزامات واپس لے۔

Share This Article
Leave a Comment