کراچی : بلوچ مظاہرین پر رات گئے پولیس کا پھر سے حملہ ،خواتین سمیت 80 شرکا گرفتار

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

پاکستان کے صوبہ سندھ کے دارلحکومت کراچی میں پولیس نے چوبیس گھنٹے کے دوران دوسری مرتبہ یعنی ہفتہ کی رات ڈیڑھ بجے کراچی پریس کلب کے باہر جاری دھرنے پر دھاواں بول دیا اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما فوزیہ بلوچ سمیت 80 کے قریب دیگر شرکا کو تشدد کے بعد گرفتار کرلیا۔ جنہیں وومن تھانہ آرام باغ تھانہ اور پریڈی تھانے میں منتقل کردیا گیا۔

واضع رہے کہ چوبیس گھنٹے کے دوران سندھ پولیس کی جانب سے یہ دوسری بار ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے پرامن شرکاء پر دھاواں بول دیا گیا ہے۔

اس سے قبل پہلی دفعہ دو اگست 2024 کی شام چار بجے بروز جمعہ کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے "بلوچ راجی مچی” پر پولیس تشدد، حراستوں اور قافلوں پر تشدد کے خلاف کراچی میں ریلی نکال رہے تھے۔

ریلی کے شرکاء نے آرٹس کونسل کراچی سے کراچی پریس کلب تک مارچ کرنے کی تیاریاں کررہے تھے کہ پولیس نے ان پر دھاواں بول دیا اور ان پر لاٹھی چارج کیا گیا۔ تاہم گرفتاری سے بچنے والے مظاہرین کی بڑی تعداد نے آرٹس کونسل کے قریب دھرنا دیاگیا۔

بعد میں یہ دھرنا کے شرکاء کراچی پریس کلب کے سامنے آنے میں کامیاب ہوگئے۔ جبکہ عوامی ردعمل کے بعد پہلی دفعہ گرفتار فوزیہ سمیت دیگر خواتین کو رہا کردیا گیا۔ تاہم دیگر اٹھارہ کے قریب مرد اور بزرگ مظاہرین کو پولیس نے رہا نہیں کیا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ رہائی پانے والی خواتین نے کراچی پریس کلب کے باہر دھرنے میں ایک بار پھر شریک ہوئیں۔ خواتین کا مطالبہ تھا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے اٹھارہ کے قریب دیگر مرد اور بزرگ کو رہا کیا جائے۔ جس پر سندھ پولیس راضی نہیں تھی۔

اس حوالے سے ہفتہ کی رات ڈیڑھ بجے کراچی پریس کلب کے باہر مظاہرین پر پولس نے چوبیس گھنٹے میں دوسری مرتبہ دھاواں بول دیا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان کی جانب جاری پریس ریلیز میں ترجمان نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے بعد سندھ میں قائم پیپلز پارٹی کی حکومت پرامن احتجاج کرنے والی بلوچ خواتین اور سیاسی ورکروں کو نشانہ بنارہی ہے۔ جس سے ہم سمجھتے ہیں یہ عمل شہید بے نظیر بھٹو کے نظریہ کی منافی ہے۔

ترجمان نے پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو سے مخاطب ہوئے کہا کہ احتجاج کرنا ہر شہری کا حق ہے اور یہ حق آئین فراہم کرتا ہے۔ افسوس ہے کہ آئین کی پاسداری خود پیپلز پارٹی کی حکومت نہیں کررہی ہے عوام کو جمہوری حق سے نہ صرف محروم کر رہی ہے بلکہ سنگین تشدد سے تمام تر روایات و اقدار کو پامال کرنے میں مصروف عمل ہے۔

Share This Article
Leave a Comment