سوڈان میں حکومتی فوج سے برسرپیکار سوڈان کے نیم فوجی دستے ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے سربراہ محمد حمدان دقلو نے سوئٹرز لینڈ میں امریکہ کی حمایت سے ہونے والے مجوزہ جنگ بندی مذاکرات کا خیرمقدم کیا ہے۔ یہ مذاکرات اگلے ماہ ہوں گے۔
امریکی حمایت سے سوئٹزرلینڈ میں ہونے والی مجوزہ بات چیت میں سوڈان میں ملک گیر جنگ بندی پر زور دیا جائے گا تاہم نیم فوجی دستے ریپڈ سپورٹ فورسز کی مخالف حکومتی سوڈانی مسلح افواج نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
دقلو نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا،”میں ان اہم مذاکرات کے انعقاد میں امریکہ، سعودی عرب اور سوئٹزر لینڈ کی کوششوں کو سراہتا ہوں۔” بات چیت، جس کا مقصد سوڈان میں تشدد کو روکنا ہے، کے لیے 14اگست کی تاریخ طے کی گئی ہے۔
دقلو کا مزید کہنا تھا،”ہم ان مذاکرات میں تعمیری طورپر شامل ہونے کے لیے تیار ہیں اور امن، استحکام، انصاف، مساوات اور وفاقی طرز حکمرانی پر مبنی ایک نئی سوڈانی ریاست کے قیام کی جانب ایک اہم قدم کے منتظر ہیں۔”
اقوام متحدہ کے مطابق سوڈان کی صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے، وہاں اب تک ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
سوڈان میں خانہ جنگی کا آغاز گزشتہ سال اپریل میں سوڈان مسلح افواج کے سربراہ عبدالفتاح کی قیادت والی ملکی فوج اور محمد حمدان دقلو کی قیادت والے نیم فوجی دستے آر ایس ایف کے درمیان جھڑپوں کے بعد ہوا تھا۔
سوڈان کی فوج نے امریکہ کی قیادت میں جنگ بندی کی پہل کے متعلق فی الحال کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے منگل کے روز نامہ نگاروں کو بتایا کہ بات چیت کا مقصد”فریقین کو دوبارہ میز پر لانا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ یہ بات چیت "ملک بھر میں تشدد کے خاتمے کے لیے اس وقت سب سے بہترین موقع ہے۔”
اس تنازع کے نتیجے سوڈان میں لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں، ملک قحط سالی کے دہانے پر ہے اور لڑائی کی وجہ سے ہزاروں جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
سوڈانی فوج اور آر ایس ایف دونوں پر جنگی جرا ئم مثلاً شہری علاقوں پر اندھا دھند حملے کا الزام لگایا گیا ہے۔
آر ایس ایف پر خاص طورپر دارفور کے علاقے میں نسلی قتل عام کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
سوڈان کے لیے اقوام متحدہ کی بین الاقوامی فیکٹ فائنڈنگ مشن نے منگل کے روز بین الاقوامی برادری سے جنگ ختم کرانے کی اپیل کی اور کہا کہ اس نے ہمسایہ ملک چاڈ میں اپنے تین ہفتے کے مشن کے دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے پریشان کن واقعات کو دستاویزی شکل دی ہے۔
مشن نے کہا کہ اس نے جون کے اواخر اور جولائی کے وسط کے درمیان تقریباً تین ہفتوں تک ان سوڈانی شہریوں کا انٹرویو کیا جنہوں نے چاڈ میں پناہ لے رکھی ہے۔