بلوچستان کا ایساکوئی علاقہ نہیں جہاں فوج کا غلبہ نہیں،ماماقدیر

0
48

بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں بلوچ جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری وی بی ایم پی کے احتجاجی کیمپ کو 5518 دن ہوگئے۔

محمد امین مکسی ایڈوکیٹ، صدام ایڈوکیٹ، عمران میروانی ایڈوکیٹ اور دیگر نے کیمپ میں آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ قابض پاکستانی ریاست نہ صرف بلوچ فرزندوں کے جبری اغوا اور حراستی قتل کا سلسلہ زور و شور سے جاری رکھی ہوئی ہے بلکہ وہ مختلف حربے استعمال کر کے بلوچ قوم کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہے مقبوضہ بلوچستان کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جہاں اس وقت قابض ریاست کے فوجوں کا غلبہ نہیں۔ مری بگٹی مکران بولان خضدار قلات کے علاقوں میں بلوچ سول آبادیوں کے خلاف بلا امتیاز ریاستی کاروائیاں گزشتہ کئی سالوں سے جاری ہیں۔ فوجی آپریشنز کے دوران بلوچ سول آبادیوں پر کیمیاوی جراثیمی نیسپام اوکلسٹر بموں کا بے تہاشا استعمال روز کا معمول بن چکا ہے بلوچ گدانوں پر فوجی لڑا طیاروں اور گن شپ ہیلی کا پروں کے ذریعے کارپٹ بمبار منٹ اب انوکھی بات نہیں رہی۔ آپریشن کے دوران اغوا ہونے والے ہزاروں بلوچوں جن میں خواتین و بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہے کے زندگی موت کے بارے میں کسی کو کوئی علم نہیں ۔ بلوچستان میں کسی کونے میں ذرا سی کڑک ہونے پر انتقامی کاروائی کے طور پر کوئٹہ کے بلوچ آبادیوں کو محاصر لے کرکے سرچ آپریشن کے نام پر بلوچ چادر چار دیواری کے تقدس کی پامالی فورسز کی روزانہ مشقوں کا حصہ سمجھے جاتے ہیں صرف انہی علاقوں سے سینکڑوں کی تعداد میں۔ بلوچوں کو جبری اغوا کر کے غائب کر دیا گیا ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے ترجمان ایمنسٹی انٹر نیشنل کے بلوچ قومی بابت اہم پیش رفت ہے مگر سنگین انسانی مسئلے کے حل اور بلوچ قومی کاز کا احاطہ کرنے کے لیے ناکافی ہے بلوچستان کے حالات صرف رپورٹس جاری کرنے کے لیے ناکامی ہیں۔ بلوچستان کے حالات صرف رپورٹس جاری کرنے کے لیے نہیں بلکہ عالمی اداروں کے فوری مداخلت کا تقاضا کر رہی ہے۔ بلوچ جبری اغوا کے حراستی قتل میں مختلف اداروں نے پاکستانی فوج اور انجنیز کو ذمہ دار قرار دے کر حقیقت کی جانب اشارہ تو کیا ہے مگر حکومت پاکستان سے تحقیقیقات کرنے اور حراستی قتل کا سلسلہ رکوانے کی گزارشات فرائض سے پہلوتہی کے برابر عمل ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here