اقوام متحدہ میں فلسطین کی مکمل رکنیت کی قرارداد امریکا نے ویٹو کر دیا

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

اقوام متحدہ کی پندرہ رکنی سلامتی کونسل میں بارہ ملکوں نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے سے متعلق قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

امریکہ نے اقوام متحدہ میں فلسطین کی مکمل رکنیت حاصل کرنے کی کوششوں کو سلامتی کونسل میں ویٹو کے ذریعہ ایک بار پھر ناکام بنادیا۔ اسرائیل کے اس اہم اتحادی کی طرف سے اس اقدام کا خدشہ پہلے سے ہی ظاہر کیا جارہا تھا۔

فلسطینی صدر محمود عباس نے ویٹو کرنے کے امریکہ کے فیصلے کو صریح جارحیت‘ قرار دیا ہے۔

قرارداد کے مسودے میں جنرل اسمبلی سے سفارش کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا کہ فلسطینی ریاست کو اس کی موجود حیثیت یعنی مبصر کی جگہ اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دی جائے۔‘‘ خیال رہے کہ قوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 137 ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں۔

الجزائر کی طرف سے پیش کردہ قرارداد کے مسودے کے حق میں بارہ ممالک نے ووٹ دیا جب کہ برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ امریکہ نے اپنا ویٹو پاور استعمال کرتے ہوئے قرارداد کو ناکام بنادیا۔

اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر ریاض منصور نے نم آنکھوں کے ساتھ کہا، حقیقت یہ ہے کہ یہ قرارداد منظور نہ ہونے سے ہمارا عزم نہیں ٹوٹے گا اور یہ اقدام ہمارے حوصلے کو شکست نہیں دے سکتا۔‘‘

انہوں نے کہا، ہم اپنی کوششوں سے باز نہیں آئیں گے۔ فلسطین کی ریاست ناگزیر ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ یاد رکھیں کہ جب یہ اجلاس جاری ہے اس وقت بھی فلسطین میں بے گناہ شہری انصاف، آزادی اور امن میں تاخیر کی وجہ اپنی جانوں سے قیمت ادا کر رہے ہیں۔‘‘

فلسطینی صدرمحمود عباس کے دفتر نے امریکی ویٹو کو ایک صریح جارحیت قرار دیا ہے جو خطے کو مزید کھائی میں دھکیل رہا ہے۔‘‘ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکی ویٹو غیر منصفانہ، غیر اخلاقی اور متعصبانہ اقدام ہے۔‘‘

امریکہ نے کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کے متعلق اس کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے کہ اقوام متحدہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مقام نہیں ہے۔ بلکہ اسے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کے نتیجے میں تسلیم کیا جانا چاہیے۔

اقوام متحدہ میں امریکی نائب سفیر رابرٹ ووڈ نے کہا کہ امریکہ دو ریاستی حل کی بھرپور حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ اور یہ ووٹ فلسطینی ریاست کی مخالفت کی عکاسی نہیں کرتا ہے بلکہ اس بات کا اعتراف ہے کہ یہ صرف فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات سے ہونا چاہیے۔‘‘

Share This Article
Leave a Comment