اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز نے خفیہ اداروں کے عدلیہ پر ’دباؤ‘ سے متعلق خط میں سپریم جوڈیشل کونسل سے مطالبہ کیا کہ آئی ایس آئی کے نمائندوں کی عدالتی امور میں مسلسل مداخلت پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔
اس خط میں کہا گیا ہے کہ جوڈیشل کنونشن سے پتہ چلے گا کہ کیا ملک کی دیگر ہائیکورٹ کے ججز کو بھی اس صورتحال کا سامنا ہے۔
اس خط میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ میں رہنمائی نہیں کی گئی کہ ایسی صورتحال میں ججز کیسے رد عمل دیں؟ اور اس کے علاوہ یہ بھی واضح نہیں کہ ججز اس طرح کی مداخلت کو کیسے ثابت کریں؟
اس خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے ادارہ جاتی رسپانس کی ضرورت ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی طرف سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ دس مئی سنہ 2023 کو ہائیکورٹ ججز نے چیف جسٹس کو لیٹر لکھا کہ آئی ایس آئی آپریٹوز کی مداخلت پر توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے۔
اس خط میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو انٹیلی جنس ادارے کی مداخلت کا بتانے پر 11 اکتوبر 2018 کوعہدے سے برطرف کیے جانے کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے 22 مارچ کے فیصلے میں جسٹس شوکت صدیقی کی برطرفی کو غلط قرار دیا اور انھیں ریٹائرڈ جج کہا۔
اس خط میں جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے عائد کردہ الزامات کی تحقیقات ہونی چاہئیں، ہائیکورٹ ججز کا خط میں جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی کے تحقیقات کرانے کے موقف کی مکمل حمائت کا اعادہ کیا گیا۔
خط میں کہا گیا کہ اگر عدلیہ کی آزادی میں مداخلت ہو رہی تھی تو عدلیہ کی آزادی کو ’انڈرمائن‘ کرنے والے کون تھے؟ اور ان کی معاونت کس نے کی؟ اس خط میں کہا گیا ہےسب کو جوابدہ کیا جائے تاکہ یہ عمل دہرایا نا جا سکے۔ اس کے علاوہ ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ میں کوئی رہنمائی نہیں کہ ایسی صورتحال کو کیسے رپورٹ کریں۔
خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس سلسلے میں تحقیقات کا سکوپ وسیع ہونا چاہیے کہ کہیں اب بھی تو اس طرح کی مداخلت جاری نہیں؟ اس خط میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ کہیں کیسز کی سماعت کے لیے مارکنگ اور بینچز کی تشکیل میں اب بھی تو مداخلت جاری نہیں؟
ججز کی طرف سے لکھے گئے خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انکوائری ہونی چاہیے کہ کیا سیاسی کیسز میں عدالتی کارروائی پر اثرانداز ہونا ریاستی پالیسی تو نہیں؟ اور کہیں انٹیلی جنس آپریٹوز کے ذریعے ججز کو دھمکا کر اس پالیسی کا نفاذ تو نہیں کیا جا رہا ہے۔
ٹیریان وائٹ کیس کے قابل سماعت ہونے کے معاملے پر بینچ میں شامل ججز کا اختلاف سامنے آیا، اور پریذائیڈنگ جج نے اپنی رائے کا ڈرافٹ بھجوایا، جس سے دیگر دو ججز نے اختلاف کیا۔
اس خط میں کہا گیا ہے کہ آئی ایس آئی کے آپریٹوز نے پٹیشن ناقابل سماعت قرار دینے والے ججز پر دوستوں، رشتہ داروں کے ذریعے دباؤ ڈالا اور جج شدید ذہنی دباؤ کے باعث ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہو کر ہسپتال داخل ہوئے اور یہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور چیف جسٹس پاکستان کے علم میں لایا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا ان کی آئی ایس آئی کے ڈی جی سی سے بات ہو گئی ہے اور چیف جسٹس نے کہا یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ آئی ایس آئی کا کوئی آفیشل ہائیکورٹ کے کسی جج کو ’اپروچ‘ نہیں کرے گا، لیکن اس کے باوجود آئی ایس آئی کے آپریٹوز کی مداخلت جاری رہی۔
ججز کی طرف سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ مئی 2023 میں ہائیکورٹ کے ایک جج کے برادر نسبتی کو مسلح افراد نے اغوا کیا اور 24 گھنٹے بعد چھوڑا۔
خط میں جج کا نام تو نہیں لکھا گیا تاہم یہ کہا گیا ہے کہ جج کے بیٹے اور فیملی کے لوگوں کی سرویلنس کی گئی جس کے بعد برادر نسبتی کو اغوا کرنے کا فیصلہ ہوا۔
خط میں الزام عائد کیا گیا کہ جج کے برادر نسبتی کو حراست کے دوران الیکٹرک شاک لگائے گئے اور وڈیو بیان ریکارڈ کرنے پر مجبور کیا گیا۔
خط میں ایک ہائیکورٹ جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر کے استعفی دینے پر دباؤ ڈالا گیا۔ اس خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک جج سرکاری گھر میں شفٹ ہوئے تو ان کے ڈرائنگ روم اور ماسٹر بیڈ روم میں کیمرے نصب تھے اورکیمرے کے ساتھ سم کارڈ بھی موجود تھا، جو آڈیو وڈیو ریکارڈنگ کسی جگہ ٹرانسمٹ کر رہا تھا۔
خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جج کے ماسٹر بیڈ روم میں بھی کیمرا لگا تھا، جج اور اس کی فیملی کی پرائیویٹ وڈیو اور یو ایس بھی ریکور ہوئی۔
ججز کی طرف سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ بارہ فروری 2024 کو پانچ ججز نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو فل کورٹ میٹنگ بلانے کے لیے لکھا جو تاحال نہیں بلائی گئی۔